بلوچستان کے علاقے ہرنائی میں دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز نے کامیاب اپریشن کرتے ہوئے بی ایل اے کے 6 اہم دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔جہنم واصل ہونے والوں میں شافو سمالانی عرف تادین، سرمد خان عرف دستین، محمد گل مری عرف واحد بلوچ، غلام قادرمری عرف انجیر بلوچ، عبید بلوچ عرف فدا اور تاج محمد عرف بابل شامل ہیں۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کا اپریشنز میں گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ خیبرپختونخواہ میں9 ماہ کے دوران دہشت گردی کے 492 واقعات رونما ہوئے جن میں 100 سے زائد پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی رپورٹ کے مطابق، رواں سال کے دوران اب تک دہشت گردوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے دوران سی ٹی ڈی نے 14 انتہائی اہم دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کے 8 کمانڈرز مقابلوں میں ہلاک ہوئے۔ اسکے علاوہ قبائلی اضلاع سمیت صوبے بھر میں اپریشنز کے دوران 203 دہشت گرد مارے گئے۔ افسوس ناک صورتحال یہ بھی ہے کہ ہماری سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے جانیں قربان کر رہی ہیں اور خیبر پختونخوا کی حکمران جماعت کی جانب سے انھیں سوشل میڈیا پر تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور صوبے کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینے کی بجائے خود کو کسی فلم کا ولن سمجھتے ہوئے سڑکوں پر سٹنٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ سی ٹی ڈی کی یہ رپورٹ ضرور پڑھیں اور اپنے صوبے کے عوام کو جواب دیں کہ دہشت گردی قابو میں کیوں نہیں آ رہی۔ سی ٹی ڈی کی رپورٹ ملک کی سلامتی کے حوالے سے باہم دست و گریباں سیاسی قیادت کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی ایک ایسا مسئلہ ہے جو کسی ایک صوبے یا جماعت کا نہیں بلکہ ہم سب کا مشترکہ دشمن ہے اور اس کی وجہ سے سب کو جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لہٰذا اس مسئلے کے حل کے لیے سب کو متحد اور یک جہت ہونا چاہیے تاکہ اس پر جلد قابو پایا جاسکے۔