”فلسطین اور 5سالہ معاشی پلان“

”آئی ایم ایف“ کے نئے قرض پروگرام میں سے ”ایک ارب ڈالرز“ موصول ہو گئے۔ ایک ماہ میں دوسری مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی۔ لوگ زیادہ کمی کا تقاضا کرتے سُنائی دئیے اِس بنیاد پر کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کافی حد تک نیچے آچکی ہیں ۔ لبنان ۔ فلسطین اور مشرق وسطی کے حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں خدشہ ہے کہ دنیا کو پہلے سے زیادہ معاشی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس شکل میں زیادہ کہ ”تیل“ کی قیمت بڑھ جائے گی اگر کوئی اور ملک براہ راست پہلے سے جاری تنازعہ میں براہ راست شامل ہو ا تو۔دنیا کے قدم ایک بڑی خوفناک جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں یہ آخری موقع ہے مسلمانوں کے پاس کہ وہ متحد ہو جائیں ۔ ”اقوام متحدہ“ سے زیادہ با اختیار ۔ منظم تنظیم کی صورت میں اپنا الگ سے فورم تشکیل دیں۔ پاکستان ۔ سعودی عرب۔ ملائیشیا اور ترکی کا کردار اِس ضمن میں انتہائی کلیدی ثابت ہو سکتا ہے ا(اور ہوگا) اگر سب ذاتی ۔ علاقائی مفادات سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف ”مسلم اُمہ“ کو بچانے کے ون پوائنٹ پر متحد ۔ متفق ہو جائیں۔طاغوتی طاقتوں کے غلبہ کے دور میں ”وزیر اعظم“ نے جنرل اسمبلی اجلاس سے واک آو¿ٹ کر کے بہت جرات۔ ہمت کا کام کیا ہر اچھے کام کی تعریف ہونی چاہیے۔ اگر حکومت اتنی کمی بھی نہ کرتی تو عوام نے کیا بگاڑ لینا تھا اسلئیے خوش ہونا سیکھیں اور شکر گزاری کی صفت کے حصول کی دعا کرتے رہنا چاہیے ورنہ حالات تو موجودہ سے بھی بد ترین ہو سکتے تھے۔ اب پٹرولیم قیمتوں میں کمی کا مکمل اور براہ راست فائدہ عام آدمی تک پہنچنا ضروری ہے یہ صرف حکومت کا کام نہیں۔ ہر وہ طبقہ جو پیداواری یونٹ کا مالک ہے یا پھر کسی دوکان ۔ فلور مل کا یا پھر ٹرانسپورٹ کا ۔ اُس کا فرض ہے کہ کم قیمت پر خریدی گئی ”چیز“ (فیول) کو کم قیمت پر ہی عوام کو فروخت کرے۔ حکومت کو چاہیے کہ بلاجواز پکڑ دحکڑ ۔چھاپوں سے گریز کرے۔ ماضی کے واقعات شاہد ہیں اِس نوعیت کے اقدامات کبھی بھی بار آور ۔ مفید ثابت نہیں ہوئے ۔ حالات بگڑنے کی صورت میں ”پاکستان“ کے لیے مشکلات دو چند ہو جائیں گی اگر ہم نے ابھی سے تدبیر کی راہ نہ اپنائی ۔ بے روزگاری زیادہ بڑھ جائے ی کیونکہ جنگ پھیلنے پر پاکستانی واپس آسکتے ہیں اور آئیں گے بھی پورے نہ سہی پر کافی تعداد میں واپسی ممکن ہے۔ مہنگائی کا گراف کم نہیں ہو پایا کیونکہ ”عوام“ بھی اپنا کردار ایمانداری سے نہیں نبھا رہی۔ کوئی بھی فرد اپنی مصنوعہ اشیاءکی قیمتوں میں کمی پر نہیں آنا چاہتا۔ ہم ریلیف کی توقع دوسروں سے ہی باندھے بیٹھے رہتے ہیں ۔ قرضوں کی ادائیگی میں بھی شاید مزید ریلیف نہ ملے اگر ”مشرقِ وسطی“ میں تناو¿ شدت اختیار کرتا ہے ۔
”5سالہ معاشی پلان“
اپنے پہلے سے بگڑے اندرونی حالات اور تیزی سے بگڑتے بیرونی حالات میں ہماری تیاری کیا اور کتنی ہے ؟ اور کِس نوع کے اقدامات اُٹھانے چاہیں ؟ پچھلے ماہ حکومت کے ”5سالہ معاشی پلان“ کی بابت کچھ خبریں نظر سے گزریں ۔ ”پلان“ کی پوری شکل سامنے نہیں آئی مگر مجوزہ منصوبہ بندی کے کچھ خدوخال جو سُننے کو ملے ۔ کافی حوصلہ افزاءہیں اب اعلان کب ہوتا ہے اس ضمن میں گہری خاموشی ہے ایسی ہی خاموشی جو عوام کو بھر پور ریلیف کی مد میں ہے اصل گنتی کا نمبر تو حکومتی نمائیندہ ہی بتا سکتا ہے پر خبریں گرم ہیں کہ جلد ہی ”ون ٹریلین“ کا منی بجٹ آنے والا ہے اِس مرتبہ ”30ستمبر“ تک 86فیصد سے زائد گوشوارے شمار کیے گئے ہیں ۔ ”36لاکھ “ سے زائد ٹیکس ریٹرنز مقررہ تاریخ تک جمع ہو چکی تھیں ۔ نئے قرض پروگرام کی منظوری اور 
سال رواں میں گوشواروں کی تعداد بڑھنے کے باوجود حالات کیوں نہیں سدھر رہے ؟ فکر تو اِس بات کی ہے کہ ناسازگا ری کا بہاو¿ صرف عوام کی طرف ہے اشرافیہ والی عوام نہیں ”عام آدمی“ والی عوام۔ بجلی ۔ گیس ۔ پٹرول کی بات ہو یا قرض ادائیگی کی ہر جانب سے بوجھ عوامی کمر پر ہی پڑتا ہے نئے قرض کے حصول کی سخت ترین شرائط کا ملبہ بھی ”عوامی کمر“ پر گرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ناتواں کندھوں پر سے بھاری بھر کم بوجھ ہٹانے میں حکومت کتنی سنجیدہ ہے ؟ بیانات کی حد تک تو سب تصویریں دل کو بھاتی ہیں پر عام آدمی کی جیب میں آہستگی ۔ دشواری سے پڑنے والے نوٹ اور سرعت سے ختم ہوتے نوٹ دیکھ کر نہیں لگتا کہ کوئی اپنے ووٹرز کے یے مخلص ہے۔ 
ہماری تاریخ ایسی قد آور اور ذہین شخصیات سے بھری پڑی ہے جو تمام عمر علوم و فنون کی ترویج میں مصروف رہے۔ ہنر بانٹتے رہے ایک عالم نے اُن سے استفادہ کیا اور آج بھی مستفید ہو رہے ہیں ۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ غوروفکر اور مشاہدہ میں آزاد تھے اُن کے نزدیک ایک ہی معیار تھا وہ تھا ”میرٹ“ یعنی اہلیت اور قابلیت صد افسوس کچھ دہائیوں سے ہمارا نظام( بالخصوص کچھ برسوں سے )آزادی فکر اور میرٹ سے محروم ہوتا رہا۔ مروجہ نظام میں موجود نقائص ۔ سقم ان کے اسباب پر غوروتدبر وقت کا تقاضا ہے ورنہ آج کا ”نظام “ کل ”مدفن“ کہلائے گا۔ 
پاکستانی دنیا کی ذہین ترین قوم ہے بیرون ممالک اکثریتی علاقوںمیں اِن کے پھیلے ہوئے کاروبار ۔ اُن ممالک کی ترقی میں ہمارا قابل رشک کردار آج بھی جاری ہے متعددمرتبہ لکھا بیرونی سرمایہ کار کیسے پاکستان آسکتے ہیں جب ہمارے لوگ اپنے کاروبار خاندان سمیت باہر منتقل کر رہے ہوں اگر واقعی ترقی ۔ خوشحالی مقصود ہے تو نجی سرمایہ کاروں کو عزت امن کے ساتھ سہولتیں دیں ۔ مزید سرکاری اداروں کی نجکاری سوائے بے روز گاری بڑھانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ بہتر ہے کہ سیاسی بھرتیاں اور توسیع در توسیع والا معاملہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔ ”اشرافیہ“ نہیں اب ”عوام“ کی سنیں ۔اب کوئی کلاس نہیں۔
 دھاگہ یہاں بنتا ہے ۔ پھر بنگلہ دیش چلا جاتا ہے وہ کپڑے بنا کر ”اربوں روپے“ کماتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہر شہر میں ”گارمنٹ سٹی“ بنا دیں۔ ہر شہر خود کفیل ہو جائے گا ۔ جو علاقے اپنی مصنوعات کے لیے مشہور ہیں مثلا ً سیالکوٹ ۔ وزیر آباد میں کٹلری ۔ فٹ بال ۔ سرجری سٹی بنا دئیے جائیں ۔ ہر شہر میں ”سیڈ سٹی“ بنا دیں جو اپنے شہر کی تمام ضروریات کو پورا کرے نہ جگہ کی کمی ہے نہ ٹیلنٹ کی۔ خرابی صرف ”نیت“ کی ہے اگر ارادہ کر لیں تو کچھ سالوں میں ہم بڑے ممالک سے آگے نکل جائیں گے۔ رہی اجناس تو ہم ایک زرخیز ملک کے مالک ہیں۔ زراعت دوست پالیسیاں بنائیں ۔ کھاد۔ بیج ۔ زرعی آلات کے کارخانے ملک میں لگانے کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ 5سالوں کے لیے ایسے شعبوں کو ٹیکس فری کر دیں۔ بنجر اور ویران بیا بانوں کو سر سبر رقبوں میں بدلنے کی کاوشیں ”پاک آرمی“ کی زیر نگرانی جاری ہیں۔ تجویز ہے ”آرمی چیف“ پاکستان کے سب سے سنگین مسئلہ ”توانائی“ کے معاملہ میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔ ہوا۔ پانی ۔ سورج کے لامحدود خزانوں کو استعمال میں لانے پر کام کا آغاز کر یں صرف اور صرف ”واحد قوت“ ہی ایسا کر سکتی ہے کے اس لیے استدعا کی ہے کہ سب اب قوم کو بجلی ۔ گیس کے ناروا بلز سے نجات دلانے میں آگے بڑھیں ۔ جو خزانے ہمارے پاس مکمل مفت میسر ہیں اُن کو استعمال کرنے کی تدابیر اپنائیں ۔ تیل کی قیمتوں میں کمی بیشی کی بات تو سمجھ آتی ہے پر اِس مد میں حکومت اپنا حصہ کم کر کے مزید اور ریلیف دے سکتی ہے کہ پروٹوکول کم کر دیں۔

ای پیپر دی نیشن

’’پاکستان تحریک احتجاج‘‘

آواز خلق فاطمہ ردا غوری  زمانہ قدیم میں بادشاہ و امراء اپنی ذاتی تسکین کی خاطر تعریف و ثناء کے پل باندھنے والے مداح شعراء ...