جب عمران خان تحریک ِ انصاف کی داغ بیل ڈال رہے تھے اس وقت سے لیکر ان کے اقتدار میں آنے تک ان کو اکثر یہ دعویٰ کرتے دیکھا گیا کہ ایک اچھے کپتان کی پہلی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی ٹیم اچھی بناتا ہے اور اچھی ٹیم فتح کی ضمانت ہوتی ہے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ کپتان نے ٹیم بنائی اور ایسا ایسا نمونہ شامل کیا جسے سیاست کی تو الف ب سے ہی واقفیت نہ تھی اور اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ وہ حسن اخلاق اور سماجی رکھ رکھاو¿ سے بھی محروم نکلا۔ آج عمران خان اور اس کی جماعت جس حال کو پہنچی ہے اس کی بنیادی وجہ اس کی ٹیم ہی بنی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد یہ ٹیم کوئی کارکردگی تو دکھا نہ سکی ، اپنے لیڈر کو اچھا مشورہ دینے سے بھی محروم رہی۔ پہلے اقتدار گیا اور اس کے بعد عوام کی دوڑیں لگوا لگوا کے بھرکس نکال کے رکھ دیا گیا۔ علی امین گنڈا پور جیسی فلم ہی دیکھ لیں جو جلسے میں تو پہنچ نہیں پاتے اور ویڈیو میں جواباً گولیاں مارنے کی دھمکیاں دینا عین سیاست سمجھتے ہیں۔
یہ ہے عمران خان کی ٹیم کا حال۔ پہلے پنجاب کے وزیراعلیٰ کی ناقص کارکردگی کا کپ جیتا اور اب روزانہ کی بنیاد پر گنڈاپور صاحب کی ”شاندار“ باﺅلنگ کی خجالت سر لے رہے ہیں۔ ثابت ہوا کہ نہ کپتان کو یہ پتہ ہے کہ سیاسی جنگ کیسے لڑی جاتی ہے اور نہ اس کی ٹیم کو۔ کیا ملک ٹکراﺅ جلاﺅ گھیراﺅ اور عوام کو آپس میں لڑاﺅ کا مزید متحمل ہوسکتا ہے کہ آپ روزانہ کی بنیاد پر ایک نیا بحران پیدا کرتے ہیں اور ملک و قوم کو مزید ایک نئے عذاب سے دوچار کرکے ناکام واپس لوٹتے ہیں۔
دوسری طرف محترمہ مریم نواز کے بطور وزیراعلیٰ کام اور کارکردگی کو دیکھا جائے تو میرے جیسا کٹڑ نقاد بھی یہ کہنےپر مجبور نظر آتا ہے کہ محترمہ کی ہر لمحہ یہ خواہش ہے کہ صوبے اور اس کے عوام کے لیے جو بن سکے اور جتنا بن سکے اچھا کیا جائے۔ یہ بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ صوبے کے اختیار میں بہت کچھ نہیں ہوتا لیکن جو کچھ ہے وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے اس کے بہترین استعمال کی کوشش نظر آتی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال مافیاءاور پرائیویٹ تعلیی اداروں کے ہوتے ہوئے سرکاری ہسپتالوں اور سرکاری تعلیمی اداروں کو اپ گریڈ کرنے کی کوشش کوئی کم لائق تحسین عمل نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں وزارت اطلاعات کی طرف سے لاہورکے سینئر صحافیوں کےساتھ مل بیٹھنے کا ایک مختصر سا اہتمام کیا گیا جس کا مقصد وزارت اطلاعات و ثقافت کی نئی ٹیم کا بالمشافہ تعارف تھا۔ محترمہ مریم نواز کی بطور کپتان کامیابی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اطلاعات و ثقافت جیسی مشکل وزارت کے لیے عظمیٰ بخاری کو چ±نا۔ عظمیٰ بخاری شروع دن سے ایک دبنگ اور بااصول سیاستدان کی شناخت رکھتی ہیں۔ انہیں محترمہ مریم نواز کا حسن ِ انتخاب کہنا چاہیے۔ ہمارے سامنے فیاض الحسن چوہان اور عامر میر کی کارکردگی بھی موجود ہے۔ یہ دونوں وزراءاطلاعات پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپنی کارکردگی کی بجائے ہمیشہ اپنی پھرتیوں کی وجہ سے یاد کیے جاتے رہیں گے جبکہ عظمیٰ بخاری کی دلیری، پولیٹیکل وزڈم اور انداز ِ کار اپنے پیش رو وزراء سے بالکل مختلف ہے۔ صحافیوں کےساتھ رکھے گئے ظہرانے میں وزیر اطلاعات نے اپنی نئی ٹیم سیکریٹری اطلاعات طاہر رضا ہمدانی اور ڈی جی پی آر پنجاب صغیر شاہد سے ملواتے ہوئے یہ بتایا کہ انہوں نے بہت سوچ بچار، مشاورت، کھوج اور حسن ِ کارکردگی کی بنیاد پر دونوں افسران کو ان ذمہ داریوں اور مناصب کے لیے اہل سمجھتے ہوے تقرریاں کی ہیں۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ دونوں افسران ہرلحاظ سے نہایت عمدہ اورصاف و شفاف کیریئر کے حامل ہیں۔
اگرچہ یہ بہت اچھی بات ہے کہ اخبارات کے واجبات کی بروقت ادائیگی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے لیکن مہنگائی کے اس دور میں انتہائی کم تنخواہ پر ساری ساری زندگی صحافت کے لیے وقف کردینے والے سینئر صحافیوں کے لیے ریاست کی طرف سے معاشی تحفظ یقینی بنایا جانا بھی بہت ضروری ہے۔ بجلی کے قاتل بل ان بیچاروں پر بھی ٹوٹ پڑے ہیں جن کی تنخواہیں سن کر اب تو لمبی لمبی تنخواہیں مفت وصول کرنے والے جعلی مدرسین کی بھی ہنسی نکل جاتی ہے۔ معاشی تنگی اور مشکلات کے اس عہد ِ ناروا میں ہر باشعور انسان کو پتہ ہے کہ صوبائی حکومتیں وفاق سے آگے نکل کر عوام کو کسی قسم کا معاشی ریلیف نہیں دے سکتیں البتہ میرٹ دے کر اور ثقافتی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے سکھ کا سانس دینے کی کوشش تو کر سکتی ہیں۔ لہٰذا ایک اور مدعا بھی زیر غور لایا جانا بہت زیادہ سنجیدگی کا متقاضی ہے اور وہ ہے زبان و ادب کی حقیقی ترویج۔ پنجاب کے پاس پہلے ہی اکا د±کا ادبی ادارے ہیں اور وہ بھی ایسے افراد کے سپرد کیے جاچکے ہیں جنہیں اپنی ذات کے علاوہ کسی شے کی نہ پرواہ ہے نہ ہوش۔ حالانکہ ادیب کی پہلی پہچان اس کا مخلص اور بے لوث ہونا ہے اور دوسرا حقیقی معنوں میں تخلیقی اور صاحب علم ہونا ہے۔ اسکے علاوہ اداروں کو چلانے کی اہلیت کا حامل ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے جبکہ مذکورہ دونوں اداروں پر نگران دور میں مسلط کیے گئے افراد متذکرہ بالا تینوں میں سے کسی ایک معیار پر بھی پورے نہیں اترتے۔ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ان اداروں پر سفارشی اور مفاد پرست ریٹائرڈ مدرسین کی بجائے حقیقی شاعروں اور ادیبوں کی تقرری کی جائے۔ اگر وزارت اطلاعات و ثقافت یہ دو ادارے ہی واگزار نہیں کروا سکتی تو پھر کم از کم شاعروں اور ادیبوں کی طرف سے کسی شاباش کی توقع نہ رکھیں۔ یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اس وقت شاعروں اور ادیبوں کو عزت دینے سے مراد ہے سوشل میڈیا پر ایک پوری فوج کا دل جیتنا۔ یہ وہ کریڈٹ ہے جو پنجاب کے دو ادبی اداروں کے ڈائریکٹروں کی صرف میرٹ پر تعیناتی سے ہی حاصل کر کے حکومت کے لیے تاریخی عزت کمائی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ سٹیج ڈراموں کے حالات یہ ہیں کہ آرٹس کونسلوں نے سٹیج ڈراموں کے چند ہومیوپیتھک سکرپٹ پہلے سے بنا کے رکھے ہیں جو ہر دفعہ نام بدل کر سکرپٹ کمیٹی کے ممبران کو بھیج کر پاس کروا لیے جاتے ہیں جس کے بعد ڈراما پروڈیوسرز ، ڈائریکٹرز اور ایکٹرز کا جو دل کرتا ہے بیچتے ہیں۔ اگر ان ڈراموں کی سرگرمی اور کاروبار بند کرنے کی بجائے اس شعبہ کی کئیر اینڈ سپورٹ کی طرز پر مدد کی جائے اور ان کا معیار بہتر بنایا جائے تو اسے پنجاب کی تہذیبی تاریخ میں سنہری حروف سےلکھا جائے گا۔