سماجی وسیاسی استحکام کو درپیش انتہاپسندی کا چیلنج نسبتاً نیا ہے۔ ماضی بعید میں اگرچہ اس کی مثالیں ملتی ہیں لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد جونئی دنیا وجود میں آئی اس میں سماجی مسائل کی نوعیت مختلف ہوگئی ہے، بالخصوص جمہوری انقلاب کے بعد جب آزادی رائے کا حق عالمی سطح پر تسلیم کرلیاگیا اور حکمرانوں کے انتخاب کا حق عوام کومنتقل ہوگیا تو بطور ہتھیار تشدد کی پذیرائی کا امکان ختم ہوگیا۔تشدد انقلابی تحریکوں کا ہتھیار رہاہے۔ انہوں نے سٹیٹس کو توڑنے کیلئے، غور وفکر کے بعد، تشدد کو بطور حکمت عملی اختیارکیا۔ ماو¿زئے تنگ اور لینن نے اپنی انقلابی حکمت عملی کے تحت تشدد کاذکرکیا۔ اس کی تائید میں دلائل دیئے اور خون بہانے کو انقلاب کی ایک ناگزیر ضرورت قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکیت کے زیراثردنیا میں جو انقلابی تحریکیں برپا ہوئیں انہوں نے اعلانیہ تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ یہ تشدد اگرچہ ریاست کے خلاف تھا لیکن بالواسطہ طور پر اس کا ہدف سماج اور عوام بنتے تھے۔
اشتراکیت کی طرح، اسلام کے نام پر جب سب کی سب نہیں مگر کچھ انقلابی تحریکیں اٹھیں تو انہوں نے بھی تشدد کو اختیارکیا۔ مصر سے الجزائر تک ہمیں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ اشتراکیت میں چونکہ مذہب کی نفی کی جاتی ہے، اس لیے اس کے پر تشدد بیانیے میں طبقاتی تقسیم کو بنیادی دلیل بنایاگیا۔ ایک خاص طبقے سے نجات کو عوامی فلاح کیلئے ناگزیر سمجھاگیا اور اس کیلئے تشدد کو ناگزیرکہاگیا۔
تشدد پرریاست کی اجارہ داری کو ہمیشہ قبول کیاگیاہے۔ مذہب کے علاوہ سیکولر تصور ریاست کے تحت بھی، ریاست کیلئے تشددکوجائز قرار دیاجاتاہے۔ مثال کے طور پر ریاست اگرکسی کے ہاتھ میں بندوق پکڑا دے تو اس حق کو چیلنج نہیں کیاجاتا۔ تاہم ریاست یہ کام کسی قانون اور ضابطے کے تحت کرتی ہے، جیسے فوج کے ادارے کا قیام یا پولیس کو مسلح کرنا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جب غیرحکومتی مسلح تحریکوں کو ریاستوں نے قبول کرنے سے انکار کیا تو انہوں نے مزاحمت کی اور اب ریاستی نظام ان کا ہدف بن گیا۔ اس کو روکنے کیلئے ریاستوں نے کئی طرح کی حکمت عملی اختیارکی۔ اسے پرتشدد انتہاپسندی Counter violent Extremismکانام دیاگیا۔
دفاع وطن کسی بھی ملک کی افواج کیلئے ایک افضل ترین فریضہ ہے اس امر کے باوجود کہ یہ جان کھونے کا کھیل ہے یہ کیا کمال احساس ہے کہ زمینی سرحدوں کی حفاظت، وجود کی بقا سے زیادہ مقدم ہوجائے اورپھر بات جب ارض پاک کی حفاظت کی ہو تو اس میں فوج کیا اور عوام کیا، دونوں یک جاں و وقالب ہوجاتے ہیں۔ جنگیں فوجیں نہیں قومیں جیتتی ہیں اوریہ ہی تاریخ پاکستانی فوج وقوم نے رقم کی۔(جب ستمبر 1965 میں بھارت نے بغیرپیشگی اطلاع کے پاکستان پر حملہ کردیا) محدود وسائل اور ناموافق بین الاقوامی حالات کے باوجود پاکستانی قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی۔لیکن افواج پاکستان نے بے جا تشدد کو اپنا وطیرہ نہیں بنایا۔ بھارت طاقت کے نشے میں چ±ور پاکستان سے کئی گنا زیادہ سپاہ اور اسلحہ و گولہ بارودلئے پاکستان پر چڑھ دوڑا لیکن یہ پاکستانی قوم کا لازوال جذبہ تھا جس نے بھارت کی فتح کی خواہش کو خواب بنادیا۔
عصرحاضرمیں یہ قوم کے جذبے ہی میں جو آنے والی کسی بھی آفت کو مات دے سکتے ہیں۔ پاکستان کی بقا ان ہی جذبوں سے ہے اور پاکستان ہے توہم ہیں!
ملک کی سلامتی اور ترقی میں ہرفرد کا اپنا کردار ہے، اس میں ہر عمر اور پیشے کے افراد کی انفرادی کارکردگی کو تنظیم اور خلوص نیت سے اجتماعی کاوش بنادیتے ہیں اور متفرق اجتماعی کوششیں ملک سے منسوب ہوں توملک کی، اقوام عالم میں باوقار شیبہہ بنتی ہے۔ وطن عزیز میں انفرادی کارکردگی پر بات کریں تو یقیناً آزادی سے لے کر آج تک بہت سی کامیابیاں نظرآتی ہیں۔ حال اورماضی قریب پر نظرڈالیں تویہ احساس غالب ہوگاکہ فوج کیا اور عوام کیا، تمام نے اپنے اپنے انداز سے اپنا حصہ ڈالاہے۔
پاکستان کے سپوت اعصام الحق نے ٹینس میں US Openمیں فائنل تک پہنچ کر دنیا کو حیران کردیا جبکہ سہولیات کے حوالے سے ٹینس کھیلنے والے ممالک پاکستان سے بہت آگے ہیں، کچھ عرصہ پہلے نسیم حمید نے سیف گیمز2010ءمیں ایشیا کی تیزترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا اور سونے کا تمغہ جیتا۔ اسی طرح پاک فوج کے سپاہی اظہرحسین نے کامن ویلتھ گیمزمیں سونے اور چاندی کے تمغے حاصل کئے۔ پاک فوج نے ایک اور قابل فخر عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا ہے جس میں لانس نائیک یوسف جمیل نے20,101پودے لگا کر اپنا نام گینزبک آف ورلڈریکارڈمیں شامل کروایا اوریہ کارنامہ سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ جنگلات کی اہمیت کو بھی اجاگرکیا اور ان تمام، مندرجہ بالا انفرادی کاوشوں کی خوشیاں اس وقت دوبالاہوگئیں جب پاکستان آرمی کی ٹیم نے کیمبرین پٹرول Patrol Cambrain کے مقابلوں میں جو برطانیہ میں ہوئے، ان میں بہترین کارکردگی پر گولڈمیڈل حاصل کیا۔ یہ بات قابل ذکرہے کہ ان مقابلوں میں جو1951سے برطانیہ میں منعقد ہو رہے ہیں ک±ل16ممالک کی76ٹیموں نے حصہ لیا اس میں پاکستانی ٹیم، امریکہ اور انڈیا کی ٹیموں سے بھی سبقت لے گئی جن کے حصے میں سلورمیڈل آئے۔ پاک فوج کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ گولڈمیڈل ایشیامیں پہلی بار جیتا گیاتھا۔
زندہ قومیں حادثوںاور غموں کواپنی طاقت بنالیتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سیلاب2010 یقیناً قوم پر امتحان تھے۔ منزل مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ضرورت ہے تو اس امر کی کہ ایک دوسرے پر اعتراض اور تنقید کی روش سے آزادہوکر منفی رویوں کو سپردلحدکریں۔ ہم وطن عزیز پر ایمان، اپنے آپ پر بھروسہ اور اپنی صلاحیتوں پر اعتمادکریں۔ بحیثیت ہم قوم ایک امن پسند، ترقی پسند اور باوقار قوم کے روپ میں ابھریں۔
یہ وقت کی پکارہے کہ ہم انفرادی سوچ کے عمل سے اجتماعی کاوش کی طرف گامزن ہوں کیونکہ یہ ہی وطن عزیز کی سلامتی کی ضمانت ہے اوریہ ملک ہے توہم ہیں پاکستان ہے تو ہم ہیں۔