ایمان کامل کا مرتبہ

’’حضرت انس ؓرسول کریم ؐ سے روایت فرماتے ہیں فرمایا کہ جس شخص میں تین باتیں ہوں گی وہ کامل ایمان کا مرتبہ پائے گا۔ ایک یہ کہ اس کا دل اللہ اور اس کے رسول ؐ کی محبت  میں سب سے زیادہ سرشار ہو، دوسرے یہ کہ صرف اللہ کے لیے کسی سے دوستی رکھے، تیسرے یہ کہ دوبارہ کافر بننا اسے اتنا ناگوار ہوجیسے آگ میں جھونک دیاجانا۔‘‘(رواہ البخاری ، باب حلاوۃ الایمان)اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی مٹھاس کسے نصیب ہوتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سرور کائنات ؐ کی محبت سے انسان حلاوت ایمان کے مرتبہ کو پہنچتا ہے۔ ایمان کو کسی میٹھی چیز سے تشبیہ دے کر یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ جو دل غفلت ، نفسانی خواہشات اور اس قسم کے دوسرے امراض سے محفوظ اور تندرست ہیں حقیقت میں وہی ثمرات محبت اور روحانی لذتوں سے لطف اندوز ہوسکیں گے، جیسے ایک تندرست اور صحیح معدہ رکھنے والا انسان ہی اچھی غذاؤں کے اصل ذائقہ کی لذت پاسکتا ہے اور غیر صحت مند اور صفراء کے مریض اچھی غذاؤں کے لطف سے محروم ہوتے ہیں، مرغوب چیزوں کو معدہ جیسے اپنے اندر جذب کرلیتا ہے اسی طرح ایمان بھی قلب سلیم کے نزدیک بہت ہی شیریں اور مرغوب ہے۔

ارشاد نبویؐ ہوا کہ جس میں تین باتیں ہونگی وہ ایمان کا مزہ‘ حلاوت پائے گا، حلاوت سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں عموماً شارح محدثین لکھتے ہیں کہ حلاوتِ معنوی مراد ہے کیونکہ ایمان کوئی حسی( محسوس کی جانے والی) چیز نہیں کہ اس کی حلاوت حسی مراد ہو، اب معنوی حلاوت کیا ہے اس بارے میں علامہ نوویؒ نے اس کو استلذاذ بالطاعات ( اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پیروی کرکے لذت پانے) سے تعبیر کیا ہے یعنی انشراح صدر ہوجائے اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت میں کوئی تنگی اور دل پر بوجھ نہ ہو بلکہ انبساط ، خوشی اور اطمینان ہو۔
جیسا کہ ارشاد باری ہے ’’ پس تیرے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہونگے جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں پھر آپ کے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کرلیں۔‘‘(سورئہ نساء:65)چنانچہ حلاوت سے مراد یہ ہوا کہ اطاعت اللہ اور اطاعت رسول میں قلب کو شیرینی جیسی حلاوت محسوس ہو۔  بعض لوگوں نے اس حلاوت معنویہ کی تشریح جزل بالایمان وانقیاد الی احکامہ (ایمان پر یقین اور اس کے احکام پر خلوص سے عمل کرنا) سے کی ہے‘ ابن ابی جمرہ نے اس تفسیر کو فقہاء کی طرف منسوب کیا ہے۔ بعض عارفین نے یہ کہا ہے کہ یہاں حلاوت معنویہ مراد لینے کی ضرورت نہیں بلکہ یہاں حسی حلاوت ہی مراد ہے‘ ارشاد نبویہ میں مذکور تین باتوں سے حسی حلاوت معلوم ہوتی ہے‘ اگر چہ ایمان باطنی چیز ہے لیکن اس کا اثر ظاہری جسم تک پہنچ جاتا ہے چنانچہ محدث عارف کبیر شیخ ابن ابی جمرہ نے منتخب بخاری پر جو شرح ’’بہجۃ النفوس‘‘ لکھی ہے اس کی جلد دوم صفحہ25تا28میں اس بارے میں بحث کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ کوئی وجہ نہیں کہ یہاں حلاوت حسیہ کا انکار کیاجائے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ حلاوتِ ایمان‘‘ ایک ایسی بات ہے کہ اس کا ادراک وہی کرسکتے ہیں جو خود بھی اس مقام تک پہنچتے ہوں لہٰذا اگر تمہیں یہ مٹھاس محسوس نہیں ہوتی تو جن کو محسوس ہوتی ہے ان کو نہ جھٹلاؤ۔‘‘
یہاں حلاوت ایمان کے لیے تین چیزوں کا ذکر کیا گیا ان میں سب سے بنیادی چیز اللہ تعالیٰ کی محبت ہے‘ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ محبت کے لائق ہیں کیونکہ محبت کے تمام اسباب مکمل طور پر اللہ تعالیٰ میں موجود ہیں‘ اس کے رسول اکرمؐ کی محبت اور پھر تمام نیک لوگوں سے اللہ کی خاطر محبت رکھنا۔اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت کے عجیب وغریب نظارے صحابہ کرامؓ کی حیات میں ملتے ہیں۔ ایک انصاری عورت کا باپ، اس کا بھائی اور شوہر شہید ہوئے وہ عورت آکر پکارتی رہی ہر ایک کے متعلق یہ خبر ملی کہ وہ شہید ہوگیا اس پر اس نے کچھ نہ کہا، بعد میں رسول اکر مؐ کی خیریت دریافت کی ، لوگوں نے بتایا کہ خیریت سے ہیں تو اس نے کہا مجھے دکھاؤ تاکہ دیکھ کر یقین کر لوں جب اس نے آپ ؐ کو دیکھ لیا تو کہنے لگی ’’ آپ کے بعد تو تمام مصیبتیں حقیر ہیں۔‘‘

ای پیپر دی نیشن