ایرانی رہبر اعلی علی خامنہ ای آج جمعے کی نماز کی امامت کریں گے جو ایک نادر اقدام ہو گا۔ نماز سے پہلے وہ خطبہ بھی دیں گے جس میں اسرائیل پر حالیہ ایرانی میزائل حملے اور تہران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی جارحیت پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔
یہ تقریبا 5 سال بعد رہبر اعلیٰ کا پہلا خطبہ جمعہ ہو گا جو بیروت کے جنوب میں اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل حسن نصر اللہ اور ایرانی القدس فورس کے قائدین کے مارے جانے کے بعد دیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل جولائی کے اواخر میں تہران میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو بھی ہلاک کر دیا گیا تھا۔علی خامنہ ای دار الحکومت تہران کے وسط میں 'امام خمینی' مصلّے میں نماز کی امامت کریں گے۔ نماز کے بعد حسن نصر اللہ کے لیے خصوصی دعا ہو گی۔علی خامنہ ای نے آخری مرتبہ جنوری 2020 میں نماز جمعہ کی امامت کی تھی۔ اس سے قبل ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈے پر میزائل داغے تھے۔ یہ کارروائی بغداد کے ہوائی اڈے کے قریب امریکی حملے میں ایرانی القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں کی گئی تھی۔ایرانی میڈیا کے مطابق جمعرات کے روز تہران میں امریکی سفارت خانے کے قریب ہجوم اکٹھا ہو گیا جس میں لوگوں نے ایرانی پرچم اور حزب اللہ تنظیم کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ ہجوم کے شرکاء نے غزہ کی پٹی اور لبنان میں اسرائیلی "جرائم" کی مذمت کرتے ہوئے نعرے بازی کی۔خامنہ ای نے حسن نصر اللہ کی موت پر ایران میں پانچ روز کے سوگ کا اعلان کیا تھا۔تجزیہ کاروں کے نزدیک اسرائیل پر ایران کا حالیہ میزائل حملہ تہران اور "مزاحمتی محور" میں اس کے اتحادیوں کو درپیش سلسلہ وار حملوں کے جواب میں کیا گیا۔ یہ 6 ماہ کے عرصے کے دوران میں اپنی نوعیت کا دوسرا حملہ ہے۔تہران کا کہنا ہے کہ اس کا یہ حملہ "اپنے دفاع" کے سلسلے میں تھا۔ اسی طرح اس نے امریکا کو بھی دھمکی دی ہے کہ اگر واشنگٹن نے ایران کے خلاف کارروائی میں مداخلت کی تو اسے "سخت رد عمل" کا سامنا کرنا پڑے گا۔تاہم واشنگٹن نے باور کرایا ہے کہ ایران کے حملے کے "بھیانک نتائج" سامنے آئیں گے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کے روز بتایا کہ ایران کی تیل کی تنصیبات کے خلاف اسرائیل کے ممکنہ حملوں کے حوالے سے "بحث جاری" ہے۔ یہ کارروائی ایران کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے بیلسٹک میزائل حملوں کے جواب میں ہو گی۔