اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ این این آئی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی تعیناتی کے خلاف دلائل کے بعد درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست گزار اکرم باری کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار اکرم باری اپنے وکیل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔ وکیل درخواست گزار نے دلائل میں کہا کہ سکندر سلطان راجہ جب تعینات ہوئے تب حاضر سروس بیوروکریٹ تھے اور سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق سینیئر سول سرونٹ کو تعینات نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ کا موجودہ یا سابق جج بھی تعینات ہو سکتا تھا۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ پھر ترمیم کر دی گئی۔ 2016ء میں ترمیم ہوئی اور اس کے بعد ریٹائرڈ افسر تعینات ہوا، وہ اس لیے کہ ریٹائرڈ افسر کسی کے ماتحت نہیں ہوتا، چیف الیکشن کمشنر حاضر سروس ملازم ہیں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اس میں کچھ لگایا آپ نے کیا، آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ایسا ہی ہوا؟ وکیل درخواستگزار نے بتایا کہ یہ ان کی ویب سائٹ پر ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مجھے مطمئن کریں اور کچھ ثابت کریں، سیٹی کی آواز آئے گی تو میں آگے بھی اطلاع دوں گا نا۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ مجھے وقت دے دیں، میں بریف کر دوں گا۔ الیکشن کمشن کے وکیل بغیر نوٹس روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میرے پاس چیف الیکشن کمشنر بننے سے قبل ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن ہے۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمشن وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو بلایا ہی نہیں اور نہ نوٹس ہوئے ابھی، لگتا ہے آپ کو بہت جلدی ہے۔ وکیل الیکشن کمشن نے بتایا کہ 24 جنوری 2020ء کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا جبکہ وہ نومبر 2019ء ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ الیکشن کمشن کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں حالیہ پٹیشن بدنیتی، حقائق کی غلط نمائندگی، بلیک میلنگ اور ہراسانی کے مقاصد کے تحت دائر کی گئی تھی۔ ترجمان الیکشن کمشن کے مطابق آئین کے آرٹیکل 213 کے تحت موجودہ چیف الیکشن کمشنر صاحب کی تقرری مکمل طور پر آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق ہوئی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر 30 نومبر 2019ء کو سول سروس سے ریٹائر ہوئے۔