مجرب نسخہ

انہیں بہت دیر سے سمجھ آتی ہے کہ وہ اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ اگر آپ کو احساس ہے کہ جمہوریت دشمن عناصر آپ کو لڑا کر جمہوریت کی گاڑی کو پھرپٹڑی سے اتارنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر آپ بیٹھے بٹھائے ان کے ٹریپ میں کیسے آجاتے ہیں۔ سلطانی ٔ جمہور کے خلاف اچانک ہنگامہ کھڑا کرنے والے ان ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو جواپنی سروس کے آغاز سے پہلے ملک، حکومت اور اپنے ادارے کے وفادار رہنے اور کسی بھی قومی راز کو افشا نہ کرنے کا حلف اٹھاتے ہیں، اپنی سروس کے دوران کی گئی تماشبینیوں کو فخریہ انداز میں سالہا سال بعد بیان کرتا دیکھ کر ان کی حوصلہ افزائی کرنا اور انہیں مزید گل کھلانے کی ہلہ شیری دینا کیا اس سسٹم کی خود ہی بنیادیں ہلانے کے مترادف نہیں تھا۔
اب انہیں احساس ہوا ہے کہ کچھ غلط ہوگیا ہے تو ایوان صدر میں اعلیٰ سطح کا مشاورتی اجلاس بلا کر یقین دلایا جا رہا ہے کہ ہم مسلم لیگ (ن) کے ساتھ لڑائی مول لینے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ صدرِ محترم اب اس یقین دہانی تک بھی آگئے ہیں کہ شہید بی بی اور میاں نوازشریف کے مابین طے پانے والے میثاق جمہوریت پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا اور 17ویں آئینی ترمیم ختم کرکے تمام آمرانہ صدارتی اختیارات پارلیمنٹ کو واپس لوٹا دیئے جائیں گے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی لیبیا سے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کو فون کرکے یہ یقین دلانے کی ضرورت محسوس ہوگئی کہ ہم سسٹم کے عدم استحکام کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لئے ہم مل کر سسٹم کو عدم استحکام کا شکار بنانے والی کوششوں کو ناکام کریں گے۔ شنید یہی ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے خود وزیراعظم کو میاں شہبازشریف سے فون پر رابطہ کرنے اور انہیں خیرسگالی کا پیغام پہنچانے کی ہدایت کی تھی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوری نظام کے خلاف اس سارے غل غپاڑے کا موقع ہی کیوں فراہم کیا گیا۔ اگر آپ کو احساس ہے اور خدا کرے ایسا ہی ہو کہ آپ نے باہم مل کر سسٹم کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے تو پھر گڑھے مردے اکھاڑ کر سیاستدانوں پر گند اچھالنے والے ریٹائرڈ ’’خفیہ والوں‘‘کی بیان بازی پر انہیں گرفت میں لے کر ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جانی چاہئے تھی نہ کہ انہیں مزید گند اچھالنے کا موقع فراہم کیا جاتا۔ یہ ایکٹ وضع کرنے کا مقصد ہی قومی راز افشا کرنے اور اس کی بنیاد پر دشمن کو ملک کی سالمیت پروار کرنے کا موقع فراہم کرنے والے بدبخت سرکاری ملازمین کی ڈھیلی چُولیں کسنے کا تھا مگر اس قانون کو بھی صرف سیاستدانوں کا گھیراتنگ کرنے کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔ میاں نوازشریف نے گزشتہ روز اپنی افطار پارٹی میں یہی تو رونا رویا ہے کہ آئین کی دفعہ 6 کو تو آئین توڑنے، منتخب جمہوری نظام کو سبوتاژ کرنے اور ملک کی سالمیت سے کھیلنے والوں کے قومی جرائم کو تحفظ دینے والا قانون بنا دیا گیا ہے۔ یہی تو اصل مرض ہے جس کا درست علاج کرنے کے بجائے عطائی ٹوٹکوں سے اسے پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ بہترین موقع نہیں تھا کہ سپریم کورٹ کے 31جولائی کے فیصلہ کی روشنی میں سابق جرنیلی آمر مشرف پر آئین کی دفعہ 6 کا جرم ثابت ہونے پر ان کے خلاف اس قانون کی عملداری قائم کردی جاتی جس سے سسٹم کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں میں مصروف عناصر کو خود ہی کان ہو جاتے اور وہ سیاستدانوں پر گند اچھالنے کے مکروہ کھیل کو شروع کرنے سے باز رہتے۔ اسی طرح اس کھیل میں شریک سازشی عناصر کے ایک آدھ مہرے کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت دھر لیا جاتا تو اپنے آنگن کا کوئی گندہ کپڑا بیچ چوراہے میں لٹکا ہوا نظر نہ آتا مگر جب نیت ہی خود یہ سارا معاملہ کرنے کی تھی تو پھر سسٹم کی چُولیں ہلانے کا اور کس کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ کیا اب قوم صرف یقین دہانیوں پر مطمئن ہو جائے گی جبکہ گزرے ہوئے ڈیڑھ سال کے دوران وہ کئی یقین دہانیوں کی بھَد اڑتے دیکھ چکی ہے اب قوم صرف اسی صورت مطمئن ہوگی جب مرے ہوئے متعفن کتے کو کنویں سے باہر نکالا جائے گاکیونکہ اس کے بغیر کنویں کا پانی پاک نہیں ہوسکتا اور آئین کی دفعہ 6 کی عملداری ہی کنویں کو پاک کرنے کا مجرب نسخہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن