نائن الیون کے دس سال اور دہشتگردی

Sep 04, 2011

عطاء الرحمن
اس ہفتے نائن الیون کے دنیا کی سیاست کا دھارا بدل کر رکھ دینے والے واقعے کو دس سال مکمل ہو جائیں گے۔ دنیا بھر کی حکومتیں، یونیورسٹیوں کے چوٹی کے سکالرز، عالمی سطح پر کام کرنے والے تھنک ٹینک ادارے، مختلف الخیال دانشور اور اخبارات و ٹیلی ویژن اس ہولناک واقعے کے اب تک کے اثرات کا ہمہ گیر جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ حالیہ تاریخ کے دوران شاید ہی کسی ایک واقعے نے پوری دنیا کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہو کہ دس سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ تازہ معلوم ہوتا ہے، اس کے لگائے ہوئے زخموں سے مسلسل خون بہہ رہا ہے۔ اس کی آہیں چہار اطراف سے سنائی دے رہی ہیں۔ خطہ ارض کی واحد سپر طاقت امریکہ نے ان پورے دس سالوں کے دوران انتقام کی آگ بجھانے کی سیاست کی ہے اور اس کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ سخت ترین انتقام کی آگ کے ان ہی شعلوں نے افغانستان اور عراق کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جن کی آزادی سلب کر لی گئی ہے۔ یہ ملک امریکہ کے فوجی قبضے کی جکڑ بندی میں ہیں۔ نائن الیون کے واقعے نے تو اڑھائی سے تین ہزار انسانوں کی جان لی تھی لیکن اس سے پیدا ہونے والے ردِّ عمل اور انتقام کی امریکی ریاست ملک افغاناں، سرزمینِ اعراق اور ارض پاکستان نے ہزار ہا لوگوں کو جن میں امریکی فوجی مقابلہ کرنے والے افغان اور عراقی شہری اور پاکستان کے فوجیوں سمیت یہاں کے عام قبائلی باشندوں کو اتنی بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اتار دیا ہے کہ صحیح شمار کیا جائے تو بات شاید لاکھوں تک پہنچ جائے۔
پاکستان کی ریاست ، اس کی سیاست اور معیشت کے علاوہ ہماری سماجی زندگیوں پر اتنے منفی اور دور رَس نتائج مرتب ہوئے ہیں کہ حالت سنبھلنے نہیں پا رہی۔ پاکستان پر اگرچہ امریکہ کا براہ راست فوجی قبضہ نہیں لیکن ہماری حکومتیں خواہ وہ مشرف کی فوجی آمریت تھی یا زرداری جمع گیلانی کی سول انتظامیہ واحد سپر طاقت کی باج گزار بن چکی ہیں۔ ملک کی حاکمیت اعلیٰ پامال ہوئی ہے۔ 2مئی کے ایبٹ آباد آپریشن نے ہماری سرحدوں کے تقدس کو مجروح کیا ہے۔ معیشت کا روپیہ روپیہ امریکی کی جانب سے ملنے والی خیرات کے ڈالروں کا رہن منت بن چکا ہے اور خون کی ندیاں ہیں کہ ڈرون امریکی حملوں اور مقابلے میں وہ ”دہشت گردی“ کی کارروائیاں کرنے والوں کی سرگرمیوں کے نتیجے میں ہمارے پورے قبائلی علاقوں کے اندر بہہ رہی ہیں جبکہ پاکستان کے جنوبی حصے میں جہاں ملک کی واحد بندرگاہ ملک کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی مرکز اور ماضی قریب میں عروس البلاد کہلانے والا کراچی واقع ہے۔ یہاں پر نسلی اور لسانی بنیادوں پر قتل و غارت گری کا وہ بازار گرم ہے کہ ملک کی چولیں ہل کر رہ گئی ہیں۔ صاحبان نظر کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے بھی جو عوامل کا رفرما ہیں ان میں اہم تر امریکی مفادات کا کھیل ہے جو اس ملک کو مسلسل غیر مستحکم رکھنا چاہتا ہے۔ کراچی کی تینوں بڑی اور حکمران جماعتیں اس کے ہاتھ میں کھیل رہی ہیں۔ تینوں کی تینوں یعنی پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی، اپنے اپنے خیالات کی وجہ سے امریکہ نواز ہونے کی شہرت رکھتی ہیں۔
امریکہ نے یہ جنگ افغانستان، عراق، پاکستان اور تقریباً پورے عالم اسلام کے اندر مذہبی دہشتگری کے خلاف برپا کر رکھی ہے۔ اس کام میں وہ ہر گز وہ تفریق روا رکھنے کیلئے تیار نہیں کہ مسلح جدوجہد کرنے والے وہ گروہ جو اپنی اپنی سرزمین اور ملک پر غیر ملکی فوجی قبضے کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ انہیں اس کا اصولی اور اخلاقی حق حاصل ہے اور اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق اگر وہ آخری چارہ کار کے طور پر یہ جنگ لڑ رہے ہیں تو ہر گز دہشت گرد قرار نہیں دیئے جا سکتے لیکن امریکہ کا غصہ تو انتقام کی آگ کی شکل میں اس حد تک بھڑک اٹھا ہے کہ وہ فلسطین اور کشمیر کے مجبور اور مقہور عوام کی آزادی کی جدوجہد پر بھی دہشت گردی کا الزام جڑ دیتا ہے۔ حالانکہ گزشتہ پچاس سال کے دوران سلامتی کونسل ان کے حق میں کئی قرار دادیں منظور کر چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور سوال جو ذہنوں میں قلبلا رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا صرف وہ دہشت گردی بُری ہے جس کے مرتکب اہل مذہب خاص طور پر مسلمان ہوں۔ خواہ وہ اس کا محاذ اپنے عوام اور ملک کی آزادی کی خاطر گرم کریں۔ اس کے برعکس اگر کسی مقام پر نسلی اور لسانی شناخت رکھنے والے گروہ ایک دوسرے کے بے گناہ افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا شکار بنائیں۔ دھڑا دھڑ بے گناہ افراد کے گلے کاٹیں، ان کی بوری بند لاشیں ہر سو بکھری پڑی ہوں، اس کام کو وحشیانہ طریقے سے جاری رکھا جائے تو آخر کیا وجہ ہے، اس دہشت گردی کی نہ مذمت کی جاتی ہے، نہ اسے روکنے کی خاطر کوئی تدبیر اختیار کی جاتی ہے، اگر یہ کام نام نہاد، سیکولر اور امریکہ کے ساتھ دوستی کا دعوی کرنے والے آپس میں گھتم گھتہ ہو کر کررہے ہوں تو پس پردہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ تو یہ کہاں کا اصول کون سی انسانیت دوستی اور کون سے عالمی امن کو استحکام دینے کی پالیسی ہے۔ اس کا جواب صرف اہل پاکستان نہیں پوری انسانیت مانگتی رہے۔
مزیدخبریں