عنبرین فاطمہ
”آمینہ الشفائی“ آسٹریلیا کی معروف خاتون ”شیف“ ہیں جو دنیا میں مختلف جگہوں پر جا کر کوکنگ شوز کو جج کرنے کے علاوہ آسٹریلیا کے بڑے ٹی وی چینلز پر کھانے پکانے کے پروگرام کرتی ہیں۔آمینہ الشفائی 27برس کی ہیں اور سڈنی میں رہتی ہیں آمینہ سعودی عرب میں پیدا ہوئیں اس کے بعد ان کی فیملی 1980ءمیں آسٹریلیا میں آن بسی۔ان کے والد مصری اور والدہ کورین ہیں۔آمینہ کا کہنا ہے کہ مجھے فخر ہے کہ میں مسلم فیملی سے تعلق رکھتی اور سکارف پہنتی ہوں۔گزشتہ دنوں آمینہ آسٹریلیا ہائی کمیشن کی دعوت پر پاکستان آئیں۔یہاں انہوںنے ”لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی“ میں ”کھانا پکانے کے مقابلے “ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔چونکہ آمینہ مسلم بیک گراﺅنڈ پر فخر محسوس کرتی ہیں اور ہر جگہ اس بات کا تذکرہ بھی کرتی ہیں۔ہم نے ان سے ”لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی“ میں کوکنگ کے مقابلے کے بعد ”حجاب اور سکارف“ کے حوالے سے بات کی۔آمینہ اسکارف لپیٹ کر رکھتی ہیں اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ اسکارف پہن کر خود کو محفوظ تصور کرتی ہوں دنیا میں کہیں بھی جاتی ہوں تو دیکھنے والے کو پتہ چل جاتا ہے کہ میں مسلم خاتون ہوں۔میں سمجھتی ہوں کہ ایک حجاب پہننے والی مسلمان عورت جم غفیر میں بھی قابل شناخت ہوتی ہے اس کے برعکس کسی غیر مسلم کا عقیدہ اکثر الفاظ کے ذریعے بیان کرنے پر ہی معلوم ہوسکتا ہے۔آمینہ نے کہا کہ مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہوتا ہے جب غیر مسلم حجاب یا اسکارف کو ظلم کی علامت سمجھتے ہیںان کا اعتقاد ہے کہ مسلم عورتوں کو رسم و رواج کا پابند بنا دیا گیا ہے اور وہ اپنی قابل افسوس حالت سے ناواقف ہیں۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ مسلم عورت کی نجات تحریک آزادی نسواں یا کسی ایسی اقتصادی و معاشرتی اصلاح کے ذریعے ہو گی جو اس کو آزادی دے،اس کے ذہن کو بیدار کرے اور اسے رسم و رواج نیز حجاب کی پابندیوں سے آزاد کرے۔میرے حساب سے ایسی باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں اسلام کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔بعض ملکوں میں تو اسکارف پہننے پرپابندی لگائی جا رہی ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ تمام تر پابندیوں کے باوجود ان ممالک میں اسکارف لینے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔اسکارف اور حجاب مسلم خواتین کا حق ہے اور یہ حق انہیں ملنا چاہیے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے پاکستان آکر بے حد خوشی ہوئی ہے اور اس سے بھی زیادہ خوشی یہ دیکھ کر ہوئی ہے کہ یہاں کی بچیوں میںحجاب اور اسکارف کتنا مقبول ہے۔آمینہ نے بتایا کہ میرے گھر والوں نے بچپن سے ہی مجھے یہ سکھایا کہ اسلام نے عورت کو اعلیٰ رتبہ دیا ہے اور جتنے حقوق اس کو اسلام نے نوازے ہیں کوئی دوسرا مذہب عورت کو نہیں دیتا۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور عورت کو جو اس نے حقوق عطا کئے ہیں اس کی نظیر کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی اور یہ بات ہمارے لئے قابل فخر بھی ہے۔ایک سوال کے جواب میں آمینہ نے کہا کہ مغرب تیزی سے بڑھتے ہوئے نو مسلموں سے خوفزدہ ہے جو مغرب کے منافقانہ طرز عمل اور مغربی تہذیب کی چکا چوند سے مایوس ہو کر اسلام کی آغوش میں اپنے آپ کو محفوظ اور ذہنی طور پر آسودہ محسوس کرتے ہیں۔اسلام قبول کرنے والوں میں خواتین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے یہ وہ مغربی خواتین ہیں ہیں جو مغرب کی نام نہاد تہذیب سے بیزار ہو چکی ہیں۔آمینہ شفائی نے آخر میں کہا کہ حجاب اور اسکارف مسلمان عورت کا زیور ہے اس کی اہمیت سے انکار کسی طور نہیں کیا جا سکتا ہے۔