بجلی چور؟

پاکستان جیسے ضرورت سے زیادہ ”آزاد“ معاشرے میں برسراقتدار آنا زیادہ مشکل نہیں رہا۔ اصل مشکل اقتدار میں آنے کے بعد باعزت طریقے سے اقتدار پر رہنا ہے۔ اقتدار میں آنے کےلئے چند دلآویز نعرے اور روپے پیسے کو پانی کی طرح بہانا ہوتا ہے اور بس۔ پروپیگنڈہ وار میں جو آگے نکل جاتا ہے ہمارے کچے کانوں اور سادہ اور معاشی طور پر بے اختیار اکثریت اسے اپنے خوابوں کا شہزادہ سمجھ کر اقتدار میں لے آتی ہے۔ ماضی میں ہماری جمہوری تاریخ کا یہی خلاصہ ہے اور یہ بھی تاریخ ہے کہ عام انتخابات کے فوراً بعد عوام کی آنکھ کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ”اٹھاں والے ٹر گئے نیں“ اور سسی نمانی سوتی ہی رہ گئی ہے۔ ایک بار پھر 2013ءکے انتخابات میں عوام نے اچھے دنوں کی امید میں مسلم لیگ ”ن“ کو پاکستان کا اقتدار سونپا ہے۔ انکے نعرے خوبصورت تھے۔ سہانے خواب دکھائے گئے تھے۔ ”لوڈ شیڈنگ“کی مت مار دی جائیگی.... قرض لینے والا کاسہ توڑ دیا جائیگا.... مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہو جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ.... مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا....یہ ایک نقطہ نظر ہے۔ ایک دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلم لیگ ”ن“ کو برسراقتدار آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ ابھی تو حکومت پاﺅں جما رہی ہے۔ ذرا پاﺅں جمع جائیں تو سارے وعدے پورے ہونگے۔ سارے خوابوں کی تعبیر سامنے آئیگی۔ سچی بات یہ ہے کہ اس بار میاں صاحبان کیلئے اقتدار90 کی دہائی کی دو باریوں والا اقتدار نہیں ہے اب کہ صورتحال یہ ہے کہ ایک قدم بھی احتیاط سے نہ رکھا گیا تو پورا وجود پھسلن کی نذر ہو سکتا ہے۔ جان لیوا مسائل میں سے سامنے کا ایک بڑا مسئلہ لوڈ شیڈنگ کا ہے۔ اس مسئلہ کے حل کےلئے حکومت کو سب سے پہلے آئی پی پیز(آزاد بجلی پیدا کرنیوالے ادارے) کی ماننی پڑی۔ سرکولر ڈیٹ کے اربوں روپے جہاں سے بھی بن پڑے ادا کئے گئے مگر یہ درد سر تو ایسا ہے کہ اگلی ڈوز نہ ملی تو پھر پہلے کی طرح ہو گا۔ اب سرکولر ڈیٹ کا اگلا دورانیہ سمجھو سر پر آیا کہ آیا۔ اس ضمن میں ایک قدم حکومت نے بجلی چوروں کیخلاف اٹھایا ہے مگر اس ضمن میں طریقہ کار موثر نہیں۔ لاکھوں کنکشنوں میں کسی علاقے میں ایک جگہ چھاپہ مار کر میڈیا میں ”کامیابی“ کی نوید سنا بھی دی گئی تو فائدہ؟ جب کتی چور سے ملی ہو تو کام مشکل ہوتا ہے۔ چوری مائیکرو لیول پر ہو رہی ہے۔ میٹر ریڈروں کا ایک بڑا حصہ اس ”بھتہ خوری“ کا عادی بن چکا ہے۔ واپڈا کروڑوں روپے چوری کی اطلاع دینے پر شہریوں کو مائل کرنے کی پروپیگنڈہ مہم پر خرچ کر رہا ہے جو سراسر قومی ضیاع ہے کیونکہ اس سے تو خرچ کے برابر بھی بجلی کی چوری نہیں پکڑی جا سکتی۔ اپنے پڑوسیوں سے آمادہ فساد وہنے کو کون تیار ہو گا۔ ایک فی لاکھ؟ ”تیری بکل دے وچ چور“ اصل چور واپڈا کے اہلکاروں کے اندر ہیں۔ ان کو پکڑنے کا میکانزم پہلے ضروری ہے۔ یہی حال گیس چوری کا ہے۔ پھر بجلی گیس چوری میں آپریشن پارٹی سیاست اور من وتو یا پسند ناپسند سے بالاتر ہو کر نہیں ہو گا تو نتیجہ صفر نکلے گا۔ لاہور میں بعض کیسوں میں ایسا ہوا ہے اور ایسی خبریں تو سینہ گزٹ یا زبان خلق بن کر پھیلا کرتی ہیں۔ میاں صاحبان کو اللہ نے موقعہ دیا ہے عزت دی ہے، اقتدار دیا ہے تو اس کا آخری موقع سمجھ کر ملک وقوم کےلئے کچھ کر گزرنے کی سیاست اولین ترجیح ہونی چاہئے اور کچھ نہیں تو بجلی کی ترسیل میں دیانتداری کو عملی شکل ہی دے دی جائے۔ یہ دیانتداری کیا ہے؟ بجلی چوری نہ ہو سکے۔ جو شخص جتنی بجلی خرچ کرے صرف اتنا ہی بل اسکو ادا کرنا پڑے۔ دفتری بددیانتی، اووربلنگ، عملے کی بلیک میلنگ، ذاتی چند ٹکوں کےلئے محکمہ کو ہزاروں کا ٹیکہ لگانے کی روایت ختم ہو۔ پہلے کیطرح ہر میٹر مالک کے پاس رینگ چارٹ ہو چور صارف ہو یا واپڈا اہلکار سب کےلئے کڑی سزا اور اس پر عمل درآمد کا قانون، یہ سب کچھ ممکن ہے اگر میاں صاحبان نے اقتدار کو عزت کے ساتھ بحال رکھنا ہے تو یہ صرف ایک ادارے کا لائحہ عمل ہے۔ دوسری صورت میں پھر وہ وقت قبل ازوقت آجاتا ہے جب تحت گرتے ہیں اور تاج اچھلتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن