سرزمین پاکستان کو انتہائی خطرناک صورتحال کا سامنا ہے۔ 9/11 کے بعد افغانستان میں امریکہ کی آمد اور افغان قوم سے تصادم اپنے منفی اثرات پاکستان پر مرتب کر چکا ہے۔ اب افغانستان دلدل اور بھنور بن گیا ہے۔ یہ خطرات خدائی آفات ہیں۔ یہ ہر صورت نازل ہونا تھیں۔ امریکہ ایسی ایمپائر ہے جو عملاً شکست سے دوچار ہے مگر تاحال وہی فیصلہ ساز ایمپائر ہے اگر افغان یا طالبان نے قطر میں امریکہ سے مذاکرات کا آغاز کیا تھا تو اچھا کیا تھا۔ صدر حامد کرزئی نے پاکستان کا دورہ کر کے اپنے سیاسی اتحادیوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان سے مدد طلب کی ہے کہ وہ طالبان سے اس کی مفاہمت میں کردار ادا کرے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ کرزئی کو صدر بنوانے میں مشرف عہد کے پاکستان نے ہی کردار دا کیا مگر صدر مشرف اور صدر کرزئی میں انتہائی تلخ تعلقات بھی موجود رہے تھے۔ افغان قوم ایک حقیقت ہے مگر دیگر اقوام بھی ایک حقیقت ہیں۔ ماضی میں ہم نے صرف افغانوں سے تعلق رکھا اور شمالی اتحاد والے بھارت و ایران کے ذریعے امریکہ کے اتحادی بن کر اقتدار میں آ گئے۔ ہمیں اس تجربے کی روشنی میں مستقبل بینی کرنی چاہئے۔ ہمارا موقف رہا ہے کہ امریکہ 2014ءمیں ہر گز افغانستان نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ اپنی بقا اور مفادات کا تحفظ یقیناً چاہے گا اور وہ پاکستان سے ہی یہ سب کچھ طلب کرنے کے باوجود گریٹر بھارت کی پالیسی پر ہی عمل پیرا رہے گا۔ لہذا پاکستان کو مغربی اور مشرقی سرحدوں سے شدید پریشانیاں اور چیلنجز درپیش رہیں گے۔ کم از کم 2015ءتک پاکستانی جغرافیہ کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے شدید خطرات لاحق رہیں گے جن میں جغرافیائی مدوجذر بھی موجود رہ سکتے ہیں لہٰذا وزیراعظم نوازشریف اور افواج میں ملکی سلامتی کے حوالے سے خواہ اس کا تعلق اندرونی سلامتی کے حوالے سے ہو یا بھارت و امریکہ کے حوالے سے لازماً اتفاق رائے موجود رہنا چاہئے اگر خدانخواستہ یہ اتفاق رائے موجود نہ ہوا تو بہت کچھ اپ سیٹ بھی ہو سکتا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی فوج کے لئے نئی پالیسی فوج کے مسائل میں اضافہ کرے گی۔ فوج سول حکومت کی مدد کو آ کر مکمل اور مثبت نتائج حاصل نہ کرسکے گی۔ اگر ایم کیو ایم نے اب فوج کو کراچی کی ضرورت ثابت کیا ہے تو کراچی کو بالخصوص اور سندھ کو باالعموم فوج ہی کے طریق کار کے مطابق ٹھیک کرنا ہو گا۔ عملاًیہ مارشل لاءیانیم مارشل لاءکی نئی صورتحال ہو گی۔ لہذا بہت سوچ لیں۔ مولانا فضل الرحمان کی پارٹی کو وزارت دینے کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔ یہ نواز شریف کی نہیںبلکہ مولانا کی فتح ہے۔ طالبان ان کے ذریعے ہرگز ریاست سے صلح نہیں کریں گے۔ مولانا اگر اتنے ہی کامیاب ہیں تو وہ تمام تر کوشش کے باوجود لال مسجد علماءکرام کو ریاست سے تصادم سے باز نہیں رکھ سکے تھے لہٰذا یہ اس آپشن میں زیادہ کامیابی کی توقع نہ رکھیں۔ نوازشریف کو مسلم لیگ کے اندر غیر سیاسی علماءکرام کے کردار کی گنجائش نکالنا ہوگی۔ وہی فضا بنانا ہو گی جو قائداعظم نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو اپنے ساتھ رکھ کر اور پارلیمنٹ کا حصہ بنا کر عملاً پیش رفت کی تھی۔ علمائے کرام کے 22 نکات کو بھی سامنے رکھیں تو فرقہ وارانہ فضا میں کافی کمی آ سکتی ہے۔ مسلم لیگ کو اب تو اپنے اندر نئی فکر‘ نئی سوچ‘ نئے جرات مندانہ اجتہادی رویوں کو سامنے لانا ہو گا۔ اقبال کے انداز کی روشنی میں پاکستان ”مولویوں“ کی جدوجہد سے نہیں بلکہ شیعہ و سنی‘ بریلوی‘ اہل حدیث حتیٰ کہ عیسائیوں کی اجتماعی جدوجہد سے حاصل ہوا تھا۔ مگر تازہ منظر میں مذہبی قوتیں زیادہ تر فرقہ وارانہ اور منفی سیاست کی راہی ہیں اور فرقہ واریت مذہب کا منفی اور ریاست مخالف کردار پاکستان کوشدید نقصان پہنچا رہے ہیں ۔اندیشہ ہے کہ یہ صورتحال طویل مدت تک موجود رہ سکتی ہے۔ وزیراعظم کو اپنے پاس زیادہ وزارتیں نہیں رکھنی چاہئیں۔ پنجاب میں شہباز شریف بھی ایسا ہی کرتے ہیں اس سے ریاستی مفادات کے حصول میں شدید تاخیر اور رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ لہٰذا کم از کم وزیر خارجہ کا معاملہ طے کر دینا چاہئے۔ اگر وہ سرتاج عزیز کو ہی رکھنا چاہتے ہیں تو اپنے موجودہ سینیٹرز میں سے کسی کو مستعفی کرائیں اور اس کی جگہ سرتاج عزیز کو پنجاب سے سینیٹر منتخب کرائیں۔ یہ کام تاخیرکا ہر گز متحمل نہیں ہے۔ کاش شریف برادران اور چودھری برادران میں صلح ہو چکی ہوتی تو مشاہد حسین سید کافی کام کے آدمی ہیں مگر شاید اب ایسا نہیں ہو گا۔ نئے آرمی چیف کے حوالے سے ہرگز لب کشائی نہ کی جائے نہ ہی چیف جسٹس کے حوالے سے‘ اکتوبر نومبر دسمبر شدید ترین بحرانی کیفیات لا سکتے ہیں بہت کچھ تبدیل ہو سکتا ہے یا کیا جا سکے گا۔