دہشت گردی کی بیماری اور نسخہ کیمیا

81 سالہ ریٹائرڈ میجر محمد شبیر احمد (ستارہ¿ شجاعت) پاکستان کے ان قابل فخر سپوتوں میں سے ہیں جن کا جذبہ¿ شجاعت کسی سرکاری درباری ستارہ¿ شجاعت کا محتاج نہیں۔ حکومت نے اگر انہیں ستارہ¿ شجاعت عطا کیا ہے تو یہ عمل خود حکومت کیلئے ستارہ¿ عزت کا درجہ رکھتا ہے۔ میجر شبیر نے پاک بھارت جنگوں میں دادِ شجاعت دی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے آخری بدقسمت لمحے تک بھارتی سازش کیخلاف جنگ آزما رہے۔ بھارت میں قید و بند کی صعوبتوں نے انکے جذبہ¿ شجاعت کو نیا حوصلہ دیا۔ وطن عزیز میں واپس آئے تو اس پاک دھرتی کیخلاف پلید ارادے رکھنے والے عناصر، بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کیخلاف ایک عرصہ تک انٹیلی جنس کے ایک خاص شعبہ میں بطور سربراہ خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس گنجل دار مکروہ چکر کی تمام چکر بازیاں ان پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں اور اس ضمن میں انکی معلومات اتنی ہمہ جہت ہیں کہ اب ع .... ”کوئی چکر ان کو چکراتا نہیں“
اگست کی آخری شام سٹیزن کونسل پاکستان کے ایک خصوصی اجلاس میں دہشت گردی اور اسکے تدارک پر مہمان خاص کی حیثیت سے بات کرتے ہوئے میجر شبیر نے وطن عزیز کیخلاف عالمی سازشوں، انکے سیاسی گماشتوں، بھتہ خوروں اور تخریب کاروں نے متعلق اپنے ذاتی مشاہدات، تجربات اور معلومات کی بنا پر فیصلہ سُنایا کہ دہشت گردی کو صوبائی سطح کی تخریب کاری قرار دینا غلط ہے۔ یہ پوری ریاست کیخلاف جنگ ہے اس لئے اس جنگ کی کمان صوبائی حکومتوں کے حوالے کرنا ایک بے ثمر کوشش ثابت ہو گا۔ ریاست کیخلاف اس جنگ کا مقابلہ صوبائی نہیں، قومی یکجہتی کیساتھ ریاستی سطح پر کیا جانا چاہئے۔ میجر شبیر نے میڈیا کے بعض باتونی دانشوروں کی طرح گرما گرم جذباتی باتیں بنانے کے بجائے نہایت پُریقین اور ٹھنڈے لہجے میں دہشتگردی کیخلاف کامیاب جنگ کی حکمتِ عملی بھی بتائی۔ ہم نے دل پر ہاتھ رکھ کر انکے خلوص کو داد دی اور سوچا ع .... ”درد رکھتے اہلِ دل کیسا “
میجر شبیر کیمطابق پولیس اور رینجرز اپنی معمول کی پیشہ ورانہ تربیت کے محدود بل بوتے پر دہشت گردی کے لامحدود گرداب سے امن کی کشتی کو ہرگز نہیں نکال سکتے۔ نہ ہی فوج کو بحیثیت ادارہ اس گرداب میں چھلانگ لگانی چاہئے کہ یہی پاکستان مخالف عالمی طاقتوں کا مکروہ منصوبہ ہے۔ انکی نظریں بلوچستان کی سرزمین، کشمیر کی مستقل غلامی اور ہماری ایٹمی صلاحیت پر لگی ہوئی ہیں۔ جب تک ہماری شیر دل فوج کی فوری رسائی سرحدوں تک رہے گی کوئی بدنظر ادھر نظر اٹھانے کی جرا¿ت نہیں کر سکتا۔ میجر شبیر کی حکمتِ عملی اعلیٰ حکومتی سطح پر پذیرائی اور ماہرانہ مشاورت کی مستحق ہے۔ اس حکمت عملی کی باریکیاں تو اس کالم میں بیان نہیں ہو سکتیں البتہ اسکا مختصر ترین خاکہ کچھ یوں ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جوابی کارروائی کو ملک گیر جنگ کا درجہ دیا جائے اور صوبائی نہیں بلکہ ایک قومی ادارہ تشکیل دیا جائے جس کے کم از کم پانچ ڈویژن ہوں، ایک ایک ڈویژن ہر صوبے کیلئے جبکہ ایک مرکز میں ہو جسے ہنگامی حالت میں ملک کے کسی بھی حصے میں بھیجا جائے۔ ادارے کا سربراہ پاکستانی فوج کا کوئی تجربہ کار جرنیل ہو جو براہِ راست وزیراعظم کو جوابدہ ہو۔ اس ادارے کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے -1 انٹیلی جنس ونگ (بشمول بم ڈسپوزل سکواڈ) -2 لڑاکا ونگ -3 منتظمہ ونگ۔ انٹیلی جنس ونگ کا فرض ہو کہ وہ ملک بھر کی سرکاری خفیہ ایجنسیوں، پولیس، رینجرز اور فوج کے خفیہ اداروں سے فوری اور براہِ راست رابطے میں رہے اور ہر روز حاصل ہونیوالی تازہ ترین اطلاعات کا گہرا تجزیہ کرنے کے بعد ممکنہ دہشت گرد کارروائیوں کو ناکام بنانے کیلئے ہنگامی طور پر حفاظتی اور جوابی حکمتِ عملی تیار کرے‘ لڑاکا ونگ جدید ترین اسلحہ کا حامل ہو اور تیز رفتاری سے مطلوبہ جگہ پر پہنچنے کی صلاحیت اور تربیت رکھتا ہو۔ لڑاکا ونگ کی تربیت ایسی ہونی چاہئے کہ دہشت گردی کی ہر ممکنہ صورتحال سے ہنگامی طور پر نمٹ سکتا ہو (کیا کیا صورتحال پیش آ سکتی ہے اسکی تفصیل میجر صاحب کے پاس موجود ہے) ۔ لڑاکا ونگ کیلئے تربیت کا اہتمام، مطلوبہ اسلحہ اور سراغ رساں الیکٹرانک آلات کی فراہمی، تیز رفتار ٹرانسپورٹ اور ہیلی کاپٹر کا انتظام اور درپیش مشکلات کو ہنگامی اقدامات سے ختم کرنا انتظامی ونگ کے ذمہ ہو۔ دہشت گردی کی جنگ سرحدوں تک پھیل جائے تو مجوزہ ادارے کی کمان اس دوران خود بخود کمانڈر انچیف کے تحت چلی جائے۔ میجر شبیر کو یقین ہے کہ ان کا نسخہ دہشت گردی کی بیماری کو جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ
یوں تو نسخے بہت سے ہیں لیکن
نسخہ¿ کیمیا یہی اِک ہے

ای پیپر دی نیشن