بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے تجزیہ نگار ولیم ڈیلر مپل کے بقول افغانستان میں اس وقت جو جنگ جاری ہے اس کی بنیاد پاکستان اور بھارت کی پرانی رقابت ہے جو کئی عشروں پر محیط ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ انکی اپنی سرحدوں کی بجائے افغانستان کی سرحدوں کے اندر لڑی جارہی ہے۔ افغانستا ن پر حملہ کے وقت سے ہی بھارت امریکی مقاصد کا آلہ کار رہا ہے اور یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں امریکی جنگ کیلئے پاکستان کی درگت بننے کے باوجود اسے قابل اعتماد” کا درجہ نہیں مل سکا۔
چنانچہ 2014ءکے بعد وہ افغانستان میں بھارت کے مستقل کے کردار کیلئے کوشاں ہے جو پاکستان کے مفادات کیلئے براہ راست چیلنج بھی ہے اس لئے پاکستان کی جانب سے اسے بے ثبات کرنے کی کوشش لازمی امر ہے جہاد افغانستان سے قبل سوویت یونین کے ساتھ بھارت بھی افغانستان کا سٹرٹیجک پارٹنر تھا سوویت یونین کی پسپائی اور بالخصوص طالبان کی حکومت کے بعد افغانستان میں بھارت کا عمل دخل ختم ہوگیا اور یہ پوزیشن پاکستان کو حاصل ہوگئی اگرچہ بھارتی کردار کے حوالے سے افغانستان کی ترقی اور سماجی استحکام میں معاونت کا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے لیکن بھارت طالبان کیخلاف امریکی اقدامات کا پرجوش حامی ہے حالانکہ طالبان ایک زندہ حقیقت ہیں اور انکے وجود کو تسلیم کئے بغیر ان سے بہتر تعلقات کے بغیر افغانستان میں ترقی اور سماجی استحکام کا تصور بھی محال ہے۔ افغانستان نے امریکہ کی شکست آمیز پسپائی کے اس پروپیگنڈہ کو باطل کردیا ہے کہ یہ امریکی حمایت اور ہتھیار تھے جن کے بل بوتے پر افغانوں نے سوویت یونین کو شکست دی تھی اب یہ امریکہ اور اسکے ہتھیار خود اسے شکست کیوں نہ بچا سکے 13جنوری 1842ءکی ایک شام جلال آباد میں برطانوی چھاﺅنی کے لیفٹیننٹ ہیولاک گشت کے دوران بیزاری سے سوچ رہا تھا ”یہ افغان سرزمین تو ہمارے لئے عذاب بنتی جارہی ہے “ آج ڈیڑھ صدی بعد امریکی فوجیوں کے دل و دماغ ایسے ہی بیزار کن خیالات کی گرفت میں ہیں ،ہیولاک نے ایک خچر آتے دیکھا جس پر فوجی وردی میں ملبوس نیم مردہ حالت میں کوئی سوار تھا نزدیک آنے پر خچر سوار نے بمشکل سر اٹھایا اور اٹکتے ہوئے الفاظ میں کہا:
”جنرل سب مرچکے ہیں صرف میںہی زندہ بچا ہوں اوہ میرے خدا میں نے اپنی آنکھوں سے لاشیں گرتی دیکھی ہیں ، ہزاروں لاشیں“
یہ ڈاکٹر بائیڈن تھا جو کابل چھاﺅنی میں 16ہزار 5 سو برطانوی فوجیوں میں سے جسے زخمی حالت میں خچر پر بٹھا کر جلال آباد کی جانب دھکیل دیا گیا تھا تاکہ برطانیہ کو اپنی فوج کے انجام کی خبر ہوجائے مگر اس انجام سے روس نے کوئی سبق نہ لیا اور 10سال تک اپنے فوجی مروانے اور معیشت کا جنازے نکلوانے کے بعد 14 فروری1989ءکو سوویت یونین کی زخم خوردہ لاش اٹھا کرواپس ماسکو چلا گیا اور صرف 13 سال بعد امریکہ کا صدر پورے یورپ کو ساتھ لیکر جدید کنگ رچرڈ کی صورت میں افغانستان پر چڑھ دوڑا اس نے برطانوی ذلت سے سبق لیا نہ روس کی ہزیمت سے عبرت پکڑی اور خود کو عبرت کا نشان بنالیا زخم خوردہ امریکہ افغانستان سے جاتو رہا ہے مگر جہاں وہ افغانستان میں حالات کو مستقل بگاڑ کے سانچے میں ڈھالنے کیلئے بھارت کے مستقل کردار کے تانے بانے بن رہا ہے وہاں امریکی اور دیگر مغربی ذرائع ابلاغ روس کو ورغلا رہے ہیں کہ اگر طالبان دوبارہ آگئے تو وسطی ایشیا چین اور روس کی سلامتی و استحکام خطرے میں پڑ جائیگی۔ اس پروپیگنڈہ کا مقصد روس کو دوبارہ افغانستان کی جنگی دلدل میں دھکیلنا ہے حالانکہ کوئی ایک ایسی مثال پیش نہیں کی جاسکتی کہ طالبان نے اپنے کسی ہمسایہ یا کمزور ملک کیخلاف زبانی طورپر بھی برے خیال کا اظہار کیا اور لگتا ہے کہ روسی اس پروپیگنڈہ کا شکار ہورہے ہیں روس کی وزارت دفاع کے ذیلی ادارے کے سربراہ سرگی کوشیلیف نے میڈیا کو بتایا کہ ہم افغانستان میں فوجی اڈوں کے قیام کیلئے مختلف زاویوں سے غور کر رہے ہیں تاکہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے بعد خطے میں روس کی موجودگی کو موثر بنایا جائے۔ ادھر نیٹو میں روس کے نمائندے الکساندرکروشکو کے بقول جنوبی قفقاز سے افغانستان کیلئے فوجی وسائل لے جانیوالے راستے پر غور ہورہا ہے روس کی جانب سے نئے راستے ترکمانستان اور تاجکستان سے گزریں گے جو روس کی جانب سے افغانستان میں فوجی اڈوں کے قیام کیلئے بھی مددگار ثابت ہونگے،اس سے روس کے افغانستان کے حوالے سے آئندہ عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کیا روسی حکام یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ سے بارہ سالہ جنگ میں طالبان یا افغان عوام بہت کمزور ہوگئے ہیں اور اب وہ افغانستان میں اسکی جانب سے فوجی اڈے بنانے کے سلسلے میں پہلی جیسی مزاحمت نہیں کرسکیں گے مگر روسیوں کو اس حقیقت پر بھی غور کرلیناچاہئے کہ اگر واقعی طالبان اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ انکی مزاحمت دم توڑ گئی ہے تو پھر امریکی وہاں سے کیوں بھاگ رہے ہیں وہ طالبان کی دم توڑ تی مزاحمت کو اپنے عزائم کی بار آوری کیلئے کیوں بروئے کار نہیں لا رہے، ریچھ ایسا جانور ہے جو روس میں بہت پایاجاتا ہے اور اسے کم عقل خیال کیاجاتا ہے روسیوں کو سمجھ لیناچاہئے کہ امریکہ جاتے جاتے طالبان کو دوسرے دشمن کے حوالے کرناچاہتا ہے لیکن طالبان کو اس سے زیادہ فرق اس لئے نہیں پڑیگا کہ انکے نزدیک یہ جاری جنگ کا تسلسل ہی ہوگا۔
روس کو پھر افغانستان میں پھنسانے کی امریکی سازش
Sep 04, 2013