حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کو Larger Than Life امیج ملا تھا۔ اس نے اپنی شناخت کرکٹ کے کھیل سے کرائی۔ گو دنیا کے بیشتر ممالک اس کھیل سے خاصے بیزار ہیں لیکن برصغیر میں اسے جنون کی حد تک چاہا جاتا ہے۔ اہل ہند تو کھیلاڑیوں کو دیوتاﺅں کا درجہ دیتے ہیں۔ اس میدان میں جس قدر مقبولیت خان کے حصے میں آئی ہے وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وسیم اکرم اور وقار یونس اس سے کہیں بہتر باﺅلرز تھے۔ شاہد آفریدی، ماجد خان، جاوید برکی کی شکل و صورت کسی طور کم نہ تھی لیکن عوام اور میڈیا نے اسے یونانی دیوتاﺅں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ کرکٹ کپ جیتنا بھی ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ بے شمارIFs لرز BUTs تھے۔ڈک ورتھ لوئیس فارمولا قومی ٹیم کا ممد اور معاون ثابت ہوا۔ خان نے وکٹری سپیچ ”میں“ سے شروع کی اور ”میں“ پر ہی ختم ہو گئی۔ اسکی مقبولیت عمر کےساتھ بڑھتی گئی۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال نے خان کا قد اور اونچا کیا۔ ناقدین کو احساس ہوا کہ ایک پلے بوائے بھی اپنے سینے میں حساس دل رکھتا ہے ۔
پے در پے کامیابیوں کے زعم میں خان یو سمجھ بیٹھا کہ سیاست کے کھیل میں بھی وہ کپتان کے فرائض سرانجام دے سکتا ہے۔ اسے اس بات کا قطعاً علم نہ تھا کہ It is a differant Ball Game اس میں ایک اوور میں چھ باﺅنسر بھی پھینکے جا سکتے ہیں۔ ایمپائرز بھی نیوٹرل نہیں ہوتے پچ سلیپری ہوتی ہے ”لیگل“ اور ”ال لیگل ڈیلوری“ میں تمیز نہیں برتی جاتی۔ نتیجتاً گزشتہ چند برس میں خان کو کوئی خاصی کامیابی نصیب نہ ہو سکی لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔
جس طرح پیپلزپارٹی نے نااہلی، لوٹ کھسوٹ، کرپشن، اقربا پروری اور مجرمانہ غفلت سے پانچ سال حکومت چلائی اس نے ساری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ ن لیگ بھی آزمائی جا چکی تھی، دو مرتبہ لیگ کو موقعہ ملا۔ دونوں دفعہ ناکام ہوئی۔ اس تناظر میں امید کی ہلکی سی کرن، پیدا ہوئی کہ شاید غیر آزمودہ شخص قوم کی کشتی کو اس بھنور سے نکال سکے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے جلسے بڑے کامیاب رہے۔ اس نے انقلاب کا نعرہ لگایا اور اسے سونامی کا نام دیا۔ حصول انصاف، کرپشن کا خاتمہ، اقربا پروری سے گریز اور قومی دولت کی منصفانہ تقسیم‘ اسکے منشور کے اہم نکتے تھے۔ ان ووٹرز کو بھی موٹی ویٹ کیا جو ووٹ ڈالنا تضیح اوقات سمجھتے تھے۔ خیال اغلب تھا کہ شاید عوام اب کے تبدیلی کے موڈ میں ہیں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اسکی پارٹی سوائے خیبر پی کے کے تمام صوبوں میں بری طرح ہار گئی۔ تحریک انصاف نے دھاندلی کا الزام لگایا اور اس سلسلے میں ہزاروں صفحات پر مشتمل وائٹ پیپر دو ماہ بعد شائع کیا ہے۔
دھاندلی کا الزام کس حد تک درست ہے اس پر بحث کرنے سے پہلے چند بنیادی باتوں کا جاننا ضروری ہے۔ اپنی ناتجربہ کا ری ضد اور بچگانہ پن سے خان نے ایک بہترین موقع گنوا دیا ہے وطن عزیز میں جس قسم کی سیاست کی جاتی ہے اس میں چو مُکھی لڑائی لڑی جاتی ہے جب آپ بیک وقت ہمہ مقتدر طاقتوں کو ناراض کر دیں تو پھر کامیابی کے امکانات ویسے ہی معدوم ہو جاتے ہیں۔ ڈرون جہازوں کو مار گرانے کی بات کرنا آسان ہے، اس پر عمل معروضی حالات میں ناممکن ہے۔ اسکا مطلب امریکہ سے براہ راست جنگ کرنا ہے۔ کیا خان نے کبھی سوچا کہ ایک ڈرون گرانے سے ہمارے سولہ F-16 طیارے بھی گر سکتے ہیں۔
دہشت گردی کیخلاف افواج پاکستان ایک صبر آزما جنگ لڑ رہی ہیں۔ ہزاروں جوان شہید ہو چکے ہیں۔ حکومت کوئی بھی ہو، وہ عسکری ادارے کی رضا مندی کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتی۔ ایک نہایت منظم طریقے سے عمران کو ”اصول پرستی“ کی دلدل میں دھکیلا گیا ہے۔ جنرل الیکشن سے پہلے پارٹی انتخابات کروانا بہت بڑی غلطی تھی اس سے لڑائی جھگڑے ہوئے۔ تلخیاں بڑھیں۔ بے شمار ناراضی گروپ بنے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان مرغان نو آموز کو ”ہیوی ویٹس“ پر ترجیح دی گئی اگر سکندر یونس، سردار آصف احمد علی و دیگران اہم سیاست دانوں کو ٹکٹ دیئے جاتے تو وہ ضرور کامیاب ہو جاتے۔ لغاری خاندان آ کر چلا گیا الیکشن ہارنے کے بعد عمران نے کہا کہ پولنگ میں بہت بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے لیکن ان تحفظات کے باوصف وہ جمہوریت کی خاطر نتائج قبول کرتے ہیں۔ یہ بڑی عجیب منطق ہے ۔ اگر خان صاحب کو یقین تھا کہ عوام کے مینڈیٹ کو ایک سازش کے تحت چرایا گیا ہے تو انہیں روز اول ہی عوام کو سڑکوں پر لے آنا چاہئے تھا۔ دو ماہ بعد احتجاج کرنا اور وائٹ پیپر شائع کرنے کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ان الیکشن پٹیشنز سے کچھ نہیں بنے گا۔ مقدمات کے فیصلے تک پانچ برس بیت جائینگے۔
گو خیبر پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن وہ بھی روز اول سے ہی ڈگمگا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی نظریں اس پر ایک شکاری پرندے کی طرح گڑی ہیں۔ انکی اکثریت وہاں پر بھی نہ تھی۔ آزاد ارکان اور جماعت اسلامی کے الحاق سے حکومت بنی ہے۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک ہے۔ مسلسل مداخلت سے کچھ یوں گمان ہوتا ہے جیسے وہ کوئی سیاسی طفل ناتجربہ کار ہے جس کو خان صاحب نے اپنی گود میں بٹھایا ہوا ہے‘ اسکو ہر وقت ڈانٹتے رہتے ہیں اور سرزنش کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ وہ بیچارا کسی پرائیویٹ تقریب میں سرکاری ہیلی کاپٹر لیکر گیا تو جان چھڑانی مشکل ہو گئی اور پٹرول کے اخراجات اپنی جیب سے دینے پڑے۔ گو سرکاری وسائل کا استعمال کوئی احسن بات نہیں ہے لیکن دیگر وزرائے اعلیٰ کیا کر رہے ہیں؟ خان صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ وزیراعلیٰ ہمہ وقت ڈیوٹی پر ہوتا ہے چاہے کسی نجی تقریب میں ہی کیوں نہ ہو۔ حیران کن بات یہ ہے کہ معمولی سے غلطی پر تو اسکی رسوائی کی گئی لیکن جب باوجود اطلاع کے ڈی آئی خان جیل توڑ دی گئی تو عمران خان نے اسے مورد الزام نہیں سمجھا۔ اس بات پر اگر استعفیٰ بھی مانگ لیتے تو جائز ہوتا۔ ویسے اس نے انکار کر دینا تھا جو شخص انکے کہنے پر دو عہدے نہیں چھوڑتا وہ وزارت اعلیٰ سے کیسے دستبردار ہوتا؟ میانوالی اور پشاور سے ضمنی الیکشن کی ہار نے عمران خان کی شہرت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ عوام کے اذہان میں یہ تاثر تیزی سے ابھر رہا ہے کہ سیاست کے میدان میں عمران ہنوز طفل مکتب ہے ۔
پھنے خان سے ننھے خان!
Sep 04, 2013