مجید نظامی، چراغ خونِ جگر سے جلائے ہیں جس نے

علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ …؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تُجھ سے کام دنیا کی امامت کا
مجید نظامی کو اگر صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق پوری طرح یاد نہ ہوتا اور 1962ء میں جنرل ایوب خان کے دور آمریت میں نوائے وقت کی ادارت سنبھالنے والے اُس زمانے میں پاکستان کے سب سے کم عمر ایڈیٹر مجید نظامی نے اگر آمریت کی تاریک رات میں اپنے خونِ جگر سے نوائے وقت کے چراغ کو روشن رکھنے کیلئے غیر معمولی جرأت و بہادری کی تاریخ مرتب نہ کی ہوتی تو آج کوئی بھی مجید نظامی کو دنیائے صحافت کا امام تسلیم نہ کرتا۔ مجید نظامی 1962ء سے لیکر 1969ء تک کے صحافتی دور (ایوبی آمریت) کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے کہ خدا کرے کہ پاکستان میں صحافت کیلئے ایسا مشکل دور دوبارہ کبھی نہ آئے کیونکہ اُس دور کی گھٹن نے حمید نظامی اور فخر ماتری جیسے صحافیوں کو ہم سے چھین لیا۔ جنرل ایوب کے دور میں صحافیوں کو بازار کی جنس سمجھ کر خریدنے کی کوشش کی گئی اور جن صحافیوں نے مجید نظامی کی طرح بِکنے سے انکار کر دیا اُن کو مالی طور پر تباہ کر کے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی۔ ایوب خان کا دور اقتدار اس اعتبار سے بھی خوفناک تھا کہ حکومت صحافت کے پیشہ میں کسی بھی شخص کو خوددار اور باعزت نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ ان مخدوش اور خطرات سے بھرے ہوئے حالات میں بھی مجید نظامی نے اپنی غیرت اور فقر کا بھرم قائم رکھا اور اپنے قلم کی حرمت پر حرف نہ آنے دیا۔ مجید نظامی نے نوائے وقت کی جب ادارت سنبھالی تو انہیں یہ پوری طرح احساس تھا کہ اُنکے بڑے بھائی حمید نظامی نے جس طرح کی صحافت کے اصول زندگی بھر اپنے پیش نظر رکھے اُن اصولوں کے مطابق صحافت تجارت نہیں بلکہ ایک مشن ہے۔ صحافت کو تجارت صرف اس حد تک ہونا چاہئے کہ اخبار اپنے وسائل سے اپنے اخراجات پورے کر سکے اور اخبار کو حکومت یا کسی جماعت سے مالی امداد نہ لینا پڑے۔ جب ایک اخبار کو اپنی اشاعت کیلئے حکومت یا کسی پرائیویٹ ادارے کے سامنے مالی مدد کیلئے ہاتھ پھیلانے پڑینگے تو پھر وہ اخبار کلمۂ حق نہیں کر سکتا۔ مجید نظامی کی روایات کو زندہ رکھا اور اُن کے طویل ترین دورِ ادارت میں نوائے وقت ہمیشہ ہی قوم کا بیباک ترجمان ثابت ہوا۔ نوائے وقت نے کبھی بھی بڑے سے بڑے مالی مفاد کا نہ تو لالچ کیا اور نہ ہی کوئی حکمران اپنے حکومتی جبر سے نوائے وقت کو اپنی آزاد پالیسی اور رائے تبدیل کرنے پر مجبور کر سکا۔ جو خبر، مضمون یا کالم قومی مفاد میں ضروری سمجھا نوائے وقت نے وہ ضرور شائع کیا چاہے مالی نقصانات کی صورت میں مجید نظامی کو اسکی کتنی بھی قیمت ادا کرنا پڑی۔
مجید نظامی 52 سال تک نوائے وقت کے ایڈیٹر رہے۔ اس طویل عرصہ میں انہوں نے یہ بات بھی ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھی کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور نئی نسل کو اس حقیقت سے باخبر رکھنا نوائے وقت کا فرض ہے کہ پاکستان کیوں بنایا گیا تھا اور پاکستان کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے بزرگوں نے کس قدر قربانیاں دی تھیں۔ نوائے وقت نے ہر دور میں قومی سالمیت، نظریہ پاکستان کے تحفظ اور نوجوان نسل میں مادرِ وطن کی محبت کی جڑوں کو گہرا کرنے میں انتہائی مؤثر کردار ادا کیا۔ میں نے شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان میں مجید نظامی کا ایک انٹرویو پڑھا ہے۔ یہ انٹرویو مئی 1969ء میں شائع ہوا تھا۔ اُس دور میں پاکستان میں کمیونزم اور سوشلزم کا مختلف سیاسی جماعتیں بڑے زور و شور سے پرچار کر رہی تھیں۔ مجید نظامی نے ایسی تمام جماعتوں کو للکارتے ہوئے کہا کہ تمہارے یہ نظریات پاکستان کی نظریاتی اساس کیلئے سخت مہلک ہیں۔ پاکستان کی نظریاتی بنیاد اسلام ہے اور کمیونزم یا سوشلزم اسلام کی نفی ہیں۔ کمیونزم اور سوشلزم کا معاملہ ختم ہوا تو پاکستان میں ایک اور طبقہ پیدا ہو گیا جس نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست تشکیل دینے کیلئے بنایا گیا تھا۔ مجید نظامی نے نوائے وقت میں اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے سیکولر طبقے کو بھی دندان شکن جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان صرف اور صرف اسلام کی خاطر حاصل کیا گیا تھا۔ زندگی بھر مجید نظامی قائداعظم اور علامہ اقبال کی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کیلئے کام کرتے رہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ مجید نظامی نے اپنی زندگی کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے پیغام کے فروغ کیلئے وقف کر دیا تھا۔ مجید نظامی اکثر کہا کرتے تھے کہ علامہ اقبال اور قائداعظم کے افکار و نظریات پر عمل کئے بغیر ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک نظریاتی ریاست نہیں بنا سکتے۔ میرے خیال میں مجید نظامی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم قلب و نظر اور ذہن میں نظریہ پاکستان کو ایک پختہ عقیدے کی طرح راسخ کر لیں اور اپنی تمام تر توانائیاں پاکستان کو جناح اور اقبال کا پاکستان بنانے کے مشن پر صرف کر دیں۔

ای پیپر دی نیشن