مادِروطن کو مزید رُسوانہ کرو!

Sep 04, 2014

ذوالفقار احمد چیمہ

جمہوریت کسی ملک میں بھی احتساب کے موثّر نظام کے بغیر نہیں چل سکتی۔ محاسبے کی چھلنی کمزور اور سکروٹنی کا نظام غیر موثّر ہوگا تو زندانوں میں جانے والے ایوانوں میں پہنچ جائینگے۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ محاسبے کے ایسے مضبوط بیرئیر نصب ہوں جنہیں دولت اور اقتدار کی کرینوں سے ہٹایا نہ جاسکے اور سیاست کو دھن دولت بڑھانے اور جرائم کے تحفّظ کیلئے استعمال کرنیوالے جنہیں عبور کرکے اسمبلیوں تک نہ پہنچ سکیں۔
دھاندلی روکنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ لٹیروں اور بدمعاشوں کو پارلیمنٹ میں جانے سے روکا جائے۔ اس مسئلے کا بنیادی حل یہ ہے کہ پورے ملک سے اعلیٰ کردار کے حامل سات سے دس افراد پر مشتمل سرچ کمیٹی (Search Committee)تشکیل دی جائے جن میں دوباکردار ریٹائرڈ جج، دونیک نام صحافی، بہت اچھی شہرت کے دو ریٹائرڈ جنرل اور دوایسے سول سرونٹ ہوں جنہوں نے دورانِ ملازمت حکمرانوں کے غیرقانونی احکامات ماننے سے انکار کیا ہو۔ احتساب بیورو اور الیکشن کمیشن کے سربراہوں کا انتخاب سرچ کمیٹی کرے۔ اس کمیٹی کو اس طرح آئینی تحفظ حاصل ہو کہ کسی پارٹی کی بھی حکومت ہو،یہ کمیٹی قائم ودائم رہے اور بلا روک ٹوک اپنا کام جاری رکھ سکے۔ انتخابات منعقد کرانا، دھاندلی کی اقسام سے باخبر ہونا اور انہیں روکنا عدالتی نوعیت کا کام (judicial function)نہیں ہے یہ انتظامی کام ہے۔ جج صاحبان کا مزاج، کام اورتجربہ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ ایسی ذمّہ داری کو موثئر طریقے سے نبھا سکیں۔ اس لئے چیف الیکشن کمشنر کیلئے ریٹائرڈ جج کی شرط ختم ہونی چاہیے۔
منصفانہ انتخاب کرانے کیلئے سول سروسز میں سے نیک نام اور بلارورعایت قانون نافذ کرنے کی شہرت رکھنے والے سخت گیر افسروں کی ضرورت ہے۔ موجودہ آئین تمام پارٹیوں کا متفقہ آئین ہے اس کی متعلقہ دفعات پوری سختی کے ساتھ لاگو کرنے والا غیر جانبداراور جر أت مند الیکشن کمشنر بدکردار افراد کو قانون ساز اداروں میں داخل ہونے سے روک سکتا ہے۔
ہمارا سیاسی نظام بڑی بنیادی اصلاحات کا متقاضی ہے کیونکہ اس میں کچھ ایسے مذاق بھی روارکھے گئے ہیں جو کسی خودمختار ملک میں قابلِ قبول نہیں ہوسکتے ۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ کسی دوسرے ملک کا شہری ترکی، ایران، ملائیشیا یا کسی بھی خودمختار ملک میں وہاں کی کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ بن سکے؟ ہرگز نہیں! پاکستان میں سیاست اور قیادت کا حق صرف اسے ملنا چاہیے جس کے تمام تر سیاسی اور معاشی مفادات اپنی دھرتی سے وابستہ ہوں۔ ایسا کوئی بھی شخص پاکستان میں کسی public officeکیلئے نااہل قرارپائے: جس کے پاس ڈبل شہریت یا ڈبل پاسپورٹ ہو۔
جس نے کسی قومی بینک سے اپنے یا بیوی بچوں کے نام پر قرضہ لیکر واپس نہ کیا ہو یا معاف کروایاہو۔
جس نے کسی پراجیکٹ میں کمیشن لیا ہو۔
برادری ازم اور پیسے کا زور توڑنے کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کی آدھی نشستیں متناسب نمائندگی کے ذریعے پُر کی جائیں تاکہ کم وسائل رکھنے والے اہل افراد بھی اسمبلیوں میں پہنچ سکیں۔    
اس ملک میں جب بھی کوئی حقیقی تبدیلی اور انقلاب لائے گا تو سب سے پہلے صدیوں پرانے گلے سڑے کریمنل جسٹس سسٹم کو تبدیل کرے گا۔ کرپشن، نااہلی، بدنیتی اور تاخیر کی جونکوں نے اس سسٹم کا خون چوس لیا ہے اور اب یہ ڈلیورکرنے کے قابل نہیں رہا۔ ہرروز تھانوں اور کچہریوں کے باہر انصاف کی تلاش میں خوار ہوتے ہوئے لاکھوں افراد اس سسٹم کی ناکامی کی شہادت دے رہے ہوتے ہیں۔ جس سسٹم کو متمول اور بااثر اپنے حق میں موڑ سکتے ہیں اور جو کسی ڈاکو اور اغواکا رکو کئی دہائیوں سے کوئی سزا نہیں دے سکا اس سسٹم سے ہم کیوں چمٹے ہوئے ہیں؟ کیا کسی پارٹی نے اس طرف غورکیا؟ کیا کسی پارٹی کے تھنک ٹینک نے اس کا متبادل سسٹم تجویز کیا ہے؟ـ
"سول نافرمانی کرو، بل جمع نہ کراؤ، بینکوں سے پیسے نکلوالو، باہر رہنے والے پاکستانیو! پیسے مت بھیجو"جیسے اعلانات سن کر دل ڈوبا ہوا تھا اور ملک کے بارے میں سوچ کر غمگینی اور افسردگی کا شکار تھا کہ ایک دوست (جو سینئر بینکرہے) ملنے آگیا میں نے پوچھا کہ دھرنوں سے ملکی معیشت پر کیسے اثرات ہوں گے؟ کہنے لگا "ملک کی معیشت کو irreparable loss (ناقابلِ تلافی نقصان ) پہنچ چکا ہے"۔ پھر اس نے اپنے گاؤں کی ایک کہانی سنائی۔
اکبر اور اصغر دوبھائی تھے اور بڑے لڑاکے۔ والد کی وفات کے بعد جائیداد کے تنازعے پر اکثر لڑتے رہتے تھے اور بوڑھی ماں بیچاری دونوں کو سمجھاتی رہتی تھی۔ ایک دن دونوں بھائی گتھم گتھا ہوگئے ایک کے ہاتھ میں چھری تھی اور دوسرے کے ہاتھ میں درانتی ___ماں نے چھڑانے کی کوشش کی دونوں نے ایک دوسرے پر وار کئے جو ماں کے جسم پر لگے۔ ایک کا ماں کے سرپر دوسرے کا گردن پر لگا۔ماں کے سر اور گردن سے خون بہنے لگا۔ ماں کا خون دیکھ کر دونوں اتھرے نوجوانوں کے خون کی گردش رک گئی اور اگلے ہی لمحے دونوں نے ہتھیار پھینک کرماں کے پاؤں پکڑ لئے۔پھر اُس کے بعد گاؤں والوں نے انہیں کبھی لڑتے نہیں دیکھا۔
ہمارے سیاستکار مادرِ وطن کو اور کس قدر لہولہان کرکے ہتھیار پھینکیں گے؟ (ختم شد)

مزیدخبریں