پاکستان چین دوستی کو مزید گہرا اور میٹھا کرنے میں ہمیں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہئے

چینی صدر کا پاکستان کو تنہا نہ چھوڑنے اور قومی سلامتی کے تحفظ میں ہرممکن تعاون کا اعلان


عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی چن پنگ نے کہا ہے کہ چین پاکستان کی قومی سلامتی کے تحفظ کے لئے ہرممکن تعاون کرے گا۔ چین کی مغربی سرحد کی سلامتی اور استحکام کے لئے پاکستان نے جو کچھ کیا وہ چین کبھی فراموش نہیں کر سکتا، ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز بیجنگ میں پاکستان کے صدر مملکت ممنون حسین سے ملاقات کے دوران پاک چین تعلقات اور خطے کی صورتحال پر ان سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مشکل وقت میں کبھی تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ دونوں ممالک کی دوستی وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ہو رہی ہے۔ ہم پاکستان سے تعلقات کو مزید وسعت دیں گے۔ انہوں نے اقتصادی راہداری منصوبہ کی ترجیحی بنیادوں پر تکمیل کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ سٹرٹیجک شراکت داری کو بے حد اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ دوستی چین کی خارجہ پالیسی میں اہمیت کی حامل ہے۔ اس موقع پر صدر ممنون حسین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ خطہ کی تقدیر بدل دے گا اور اس منصوبہ کو ہر قیمت پر مکمل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چینی باشندوں کا تحفظ ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔ پاکستان اور چین ہمیشہ ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک رہے ہیں ان کی دوستی خوشگوار اور آزمودہ ہے۔ انہوں نے چین کو پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور کہا کہ ہم پاکستان چین دوستی آئندہ نسلوں کو منتقل کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے پاکستان چین فرینڈ شپ ایسوسی ایشن اور چین انٹرنیشنل کلچر کمیونی کیشن سنٹر کی جانب سے مشترکہ طور پر دئیے گئے ظہرانہ میں بھی شرکت کی۔
پاکستان چین بے لوث اور پائیدار دوستی بلاشبہ ضرب المثل بن چکی ہے۔ جسے ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی کا نام دیا جاتا ہے اور یہ محض لفاظی کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر آزمائش کے ہر مرحلے میں اور مشکل کی ہر گھڑی میں چین پاکستان کے لئے ڈھال بنا نظر آیا ہے اور اسی طرح پاکستان نے بھی آزمائش کے کسی مرحلہ میں چین کے ساتھ دوستی پر کبھی حرف نہیں آنے دیا۔ چونکہ پاکستان اور چین کے علاقائی مفادات بھی مشترکہ ہیں جن پر کسی جانب سے زد پڑنے کا خطرہ محسوس ہوتا ہے تو اس خطرے سے عہدہ براء ہونے کے لئے چین اور پاکستان ایک دوسرے کے دست و بازو بنے نظر آتے ہیں۔ بے شک دنیا کی منڈیوں تک رسائی کے لئے بھارت کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات بھی چین کی حکمتِ عملی کا حصہ ہو سکتا ہے تاہم سٹرٹیجک شراکت داری پاک چین دوستی کا ہی خاصہ ہے جس کے تحت باہمی جغرافیائی اور علاقائی سلامتی اور اقتصادی استحکام کے معاملات میں پاکستان اور چین ہی ایک دوسرے کے فطری اتحادی ہیں۔
اس وقت پاکستان کو شاطر اور دیرینہ دشمن بھارت کے جنگی جنونی عزائم کی بنیاد پر اپنی سلامتی کو جو خطرات لاحق ہیں اور جس طرح پاکستان اس علاقہ کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے اور بے بہا جانی اور مالی قربانیاں دے کر دہشت گردوں کے خلاف اپریشن میں مصروف ہے جبکہ بھارت کے تربیت یافتہ دہشت گرد اپنی گھنائونی وارداتوں کے ذریعے ملک کی سلامتی کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ اس کے پیش نظر ہمیں چین کے دفاعی تعاون کی زیادہ ضرورت ہے۔ چونکہ بھارت پاکستان اور چین کا مشترکہ دشمن ہے جو پاکستان پر تین جنگیں مسلط کر چکا ہے اور اب بھی اس کے جنونی عزائم پاکستان پر جنگ مسلط کرنے والے ہی نظر آ رہے ہیں اسی طرح وہ 60ء کی دہائی میں چین کے علاقے اروناچل پردیش پر بھی بزور تسلط جمانے کی مکارانہ چال چل چکا ہے جس میں اسے چینی فوجوں کے ہاتھوں منہ کی کھانا پڑی تھی تاہم وہ اب بھی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر چین سے مڈبھیڑ کا عندیہ دیتا رہتا ہے جس کے ایک سابق آرمی چیف نے یہ گیدڑ بھبکی بھی لگائی تھی کہ بھارت اپنی حربی صلاحیتوں اور استعداد کی بنیاد پر 85گھنٹوں میں بیک وقت بیجنگ اور اسلام آباد کو ’’ٹوپل‘‘ کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں چین خود بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے ہمہ وقت مستعد و چوکنا رہتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کے عزم پر بھی کاربند ہے جس کا عندیہ چین کے صدر شی چن پنگ کے گزشتہ روز کے بیان سے بھی ملتا ہے۔ یقیناً چین کو اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ سے دو نوں ممالک اور پورے علاقہ کی ترقی و خوشحالی کی کھلنے والی راہوں پر بھارت کے پیٹ میں مرو ڑ اٹھ رہے ہیں جو اسی بنیاد پر علاقائی ترقی و خوشحالی کے ضامن اس منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں میں مگن ہے اس لئے چین خود بھی راہداری منصوبہ کے خلاف بھارتی عزائم خاک میں ملانے کے لئے پاکستان کے ہمقدم ہو گا اور اس حوالے سے نریندر مودی کے گزشتہ دورہ چین کے موقع پر راہداری منصوبہ کے خلاف ان کے احتجاج کو ٹھکرا کر چین کے صدر انہیں دوٹوک جواب دے چکے ہیں کہ اس باہمی منصوبے میں کسی تیسرے ملک کا کوئی لینا دینا نہیں ہے اس لئے بھارت اپنے کام سے کام رکھے۔ چین کے اس مسکت جواب کے بعد ہی جنونی بھارت نے گوادر پورٹ اور راہداری منصوبے سے ایران اور افغانستان کو برگشتہ کرنے کی کوشش کی اور پاکستان بالخصوص بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بگاڑنے کے لئے دہشت گردی کی کارروائیاں تیز کیں جبکہ کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر اس کی روزانہ کی بنیاد پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ مودی حکومت کے قیام کے وقت سے ہی جاری ہے چنانچہ اس صورتحال میں پاکستان کی قومی سلامتی کے تحفظ کے لئے چین کے صدر کا پاکستان سے ہرممکن تعاون کا اعلان ہماری سلامتی کے خلاف ہذیانی کیفیت میں مبتلا بھارت کے ہوش ٹھکانے پر لانے کے لئے کافی ہے کیونکہ یہ محض رسمی اعلان نہیں، چین پاکستان کے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے متعدد معاہدے بھی کر چکا ہے۔
پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھارتی جنونی عزائم سے تو اس وقت پوری دنیا آگاہ ہے مگر پاکستان کی اعلانیہ حمائت صرف چین کی طرف سے سامنے آئی ہے جبکہ اس کے برعکس امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر روزن رائس گزشتہ ہفتے اسلام آباد آ کر بھارتی جنونی عزائم کے آگے بند باندھنے کا عندیہ دینے کے بجائے پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کے تقاضے کر چکی ہیں۔ ہمارے ساتھ ایسا ہی منافقانہ رویہ دوسرے مغربی یورپی ممالک کی جانب سے بھی اختیار کیا جاتا ہے جبکہ ہمارا پڑوسی برادر مسلم ملک افغانستان بھی، جس کے امن کی ہمیں ہی زیادہ فکر لاحق ہے، ہم پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ اس تناظر میں چین کا پاکستان کو تنہا نہ چھوڑنے کا اعلان ہمارے لئے حوصلہ مندی کی علامت ہے۔ اگرچہ گزشتہ روز برطانوی حکام نے بھی وزیر داخلہ پاکستان چودھری نثار علی خاں کی جانب سے پاکستان میں بھارتی مداخلت سے متعلق فراہم کئے گئے ثبوتوں کی بنیاد پر یہ رسمی جواب دیا ہے کہ یہ ثبوت مودی کے دورہ برطانیہ کے موقع پر ان کے سامنے رکھے جائیں گے تاہم برطانیہ کی جانب سے بھارت کے خلاف پاکستان کے موقف کی حمائت کرنے کا قطعاً عندیہ نہیں دیا گیا، حد تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی جانب سے کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کرنے اور بھارتی جارحیت کی تصدیق کرنے کے باوجود منافقانہ پالیسی کے تحت دونوں ممالک پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ فائرنگ کا سلسلہ ترک کرکے امن کی راہ اختیار کریں ۔ وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ روز باغ آزاد کشمیر میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اسی تناظر میں دنیا کو باور کرایا ہے کہ بھارت کی کشمیریوں کے خلاف کھلی جارحیت امن کے لئے خطرہ ہے اور ہم پاکستان کی طرف اٹھنے والی ہر میلی آنکھ پھوڑ دیں گے۔ انہیں اب اس معاملہ میں عملی اقدامات کا بھی ٹھوس پیغام دینا چاہئے جبکہ اس معاملہ میں چین کا ہمارے ساتھ تعاون کا اعلان اس مشکل گھڑی میں ہمارے حوصلے بڑھائے کا باعث بنے گا۔ اگرچہ دہشت گردوں کے حوالے سے چین کے بھی ہمارے ساتھ کچھ تحفظات ہیں۔ اس کے باوجود چین ہماری قومی سلامتی کے تحفظ کے لئے ہمارے ساتھ اعلانیہ کھڑا نظر آ رہا ہے تو ہمیں بھی چین کے تحفظات دور کرنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے تاکہ اس معاملہ میں بھارت کی جانب سے پاکستان اور چین تعلقات میں کسی قسم کی دراڑیں پیدا کرنے کی کوئی سازش کامیاب نہ ہو سکے۔ پاکستان چین دوستی تو بلاشبہ لازوال اور بے مثال ہے۔ اس دوستی کو مزید گہرا اور مزید میٹھا کرنے کے لئے ہمیں بھی چین کے ہمقدم رہنا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن