ہمارے لئے یہ دور ابتلا تو جلد ہی ختم ہو گیا کہ ابو جی ایک قومی روزنامہ کے ایڈیٹر بن گئے اور ہماری زندگی کی گاڑی دوبارہ باعزت طریقے سے چلنے لگی ٗ لیکن ابھی بھی مارشل لاء کی اسی آگ میں جل رہے تھے۔ ہمارے رفیق روزنامہ نوائے وقت میں جبر کیخلاف آواز بلند کرتے رہے لیکن اس بیماری میں ان کے ذہن میں مارشل لاء کے علاوہ اور کوئی موضوع تھا ہی نہیں یہ انکل مجید نظامی کی ہمت تھی کہ وہ پس غبار کے عنوان سے ان کے اتنے سخت کالم چھاپتے رہے ٗ ابو جی اپنے آپ کو زندہ خیال نہیں کرتے تھے اسلئے مارشل لائی دور میں وہ اپنی برسی مناتے رہے اور مجید نظامی ان کی زندگی میں ان کی برسیوں کی صدارت کرتے رہے۔ لیکن جب نظامی صاحب اس دنیا سے رخصت ہو گئے تو وہ ان کا زندگی کا آخری کالم تھا جو چھپا اور وہ بھی روزنامہ نوائے وقت میں۔جب بھی ابو جی سے کہا کہ اب آپ لکھتے کیوں نہیں ٗ لکھا کریں تو ان کا جواب ہوتا کہ ’’ اب لکھنے پر دل نہیں کرتا‘‘۔ بہت سے واقعات ذہن میں آرہے ہیں کیونکہ ہم نے مارشل لاء کے اس دور ابتلا کو دیکھا نہیں بیتا ٗجیا اور جھیلا ہے ۔ ایک دن ابو گھر آئے تو ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے ٗ وہ سفید رنگ کا کرتا تھا ٗ سامنے والے دو دانت ٹوٹے ہوئے تھے ٗہونٹ زخمی تھے۔ بہت پریشان ہو کر پوچھا کہ کیا ہوا ’’ کہا کچھ نہیں ویسے ہی گر گیا تھا ‘‘۔ چند دن بعد ادبی بیٹھک میںان کے یار غار انکل خالد احمد نے بہت اصرار پر بتایا کہ پنجاب اسمبلی کے باہر فوج کو گالیاں نکال رہے تھے کہ ایجنسیوں کے بندوں نے مارا ہے‘‘۔قومی موقر اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ دفتر میں نئی کلٹس کی چابی لے کر آئے ٗ شاید الیکشن کے دن تھے ’’ غوری صاحب !آپ کے پاس پرانی گاڑی ہے ۔ آپ کیلئے تحفہ لایا ہوں آپ پرانی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اچھے نہیں لگتے‘‘۔ ابو جی نے اس بہت بڑے سیاستدان کو گالیاں نکال کر دفتر سے باہر نکال دیا اور نیچے گارڈ کو اس کے سامنے فون کرکے ہدایات دیں ’’آج کے بعد یہ … دوبارہ آئے تو اسے میرے پاس نہیں آنے دینا ‘‘۔ بیماری کے ان سولہ سالوں میں ایک بار میو ہسپتال میں داخل تھے۔ ایک بڑے سیاستدان کے بیٹے 5لاکھ روپے کا امدادی چیک لیکر آئے تو کہا ’’یہ کس لئے‘‘۔ آپ کی صحت یابی کیلئے۔کہا ’’میں اتنے ہی پیسے لوں گا جتنے کل بیماری پر آپ کے والد صاحب کو دے سکوں ‘‘۔ ابو جی اکثر یہ شعر سنایا کرتے تھے
ملبوس توکل میں یہ خوبی ہے اس میں
پیوند تو ہو سکتے ہیں دھبے نہیں ہوتے
ابو جی کے کمرے میں کتابوں کے علاوہ ایک تختی بھی ہے جس پر انہوں اپنے کسی دوست سے لکھوا رکھا تھا ’’ اپنے لہو سے لکھنا سیکھو ‘‘۔ ایک دیوار پر یہ شعر بھی لکھا ہے
صد شکر کے افلاس کی یلغار میں دانش
فاقہ کوئی توہین ہنر تک نہیں پہنچا
یہ دور تو ہمارے رفیق کا دور ابتلا تھا لیکن اصل رفیق غوری سے ملنا ہے تو آپ کو 1999ء کے مارشل لاء سے پہلے جانا پڑے گا۔جب ایک نوجوان گائوں سے کچھ بننے کیلئے لاہور میں آیا ٗ جس کے پاس رہنے کیلئے چھت نہیں تھی اور وہ مسجد میں راتیں گزارتا تھا ٗ رکشے دھوئے ٗ مزدوری کی ۔ لاہور جمخانہ کی تعمیر میں بحیثیت مزدور کام ،اور جب ان کے اعزاز میں ایک تقریب اسی جمخانہ میں سجائی گئی تو ہمارے رفیق نے فخریہ بتایا کہ ’’ آج جس جگہ میرے اعزاز میں تقریب ہے اس کی تعمیر میں میں نے ایک مزدور کے طور پر کام کیا ہے ‘‘۔ صحافت کا آغاز آغا شورش کاشمیری کیساتھ چٹان سے کیا جو اس وقت حق اور سچ کا علمبردار تھا ٗوہاں پر ہمارے رفیق کی ابتدائی ذمہ داریاں ایڈمن منیجر کی تھیں ٗ بجلی کا بل ٹھیک کرانا ٗ قسطیں کرانا ٗ جمع کرانا اور ایسے ہی دیگر کام۔ ایک بڑے سیاستدان کی طرف چٹان کی ذمہ داری نبھانے گئے تو اس نے 2گھنٹے تک دھوپ میں کھڑارکھا ٗ وقت بدلا تو اسی چٹان میں ڈپٹی ایڈیٹر بن گئے اور اسی سیاستدان کا انٹرویو کرنے گئے تو کہا میں وہی ہوں جس کو آپ نے دو گھنٹے تک دھوپ میں کھڑا کیے رکھا تھا اور پھر اس سیاستدان نے اس پر معذرت کی ۔ جونیجو کیخلاف قومی اسمبلی کے الیکشن پر کھڑے ہوئے میری تربیت کا آغاز ہو چکا تھا۔ الیکشن کمپین میری ذمہ داری ٹھہری اور میں اتنا چھوٹا تھا کہ پک اپ کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر باہر سے نظر نہیں آتا تھا میری آواز کم سنی کی وجہ سے باریک تھی اور سب گائوں والے یہ خیال کرتے تھے غوری صاحب کی کمپین کوئی خاتون کر رہی ہیں۔ تب گائوں گائوں جاکر یہ شعر پڑھنا مجھے آج بھی یاد ہے ۔
جب کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہو
ڈٹ جائو تم حسین کے انکار کی طرح
سنٹرل ماڈل سکول کا وہ دور یاد آ رہا ہے جب ہمارے رفیق نے پنجاب اسمبلی میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ میاں منظور وٹو کیخلاف نااہلی کا ر یفرنس داخل کروا دیا۔ اگلے ہی کسی دن ہم دونوں بھائی رکشے میں سکول جا رہے تھے تو مسلح گارڈز سے بھری ہوئی گاڑیاں ہمارے راستے میںآ کھڑی ہو ئیں اور ہمارے ذریعے ابو کو یہ پیغام دیا گیا کہ باز آ جائو ورنہ نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہو جائو۔ پھر ہمارے رفیق نے ریفرنس واپس لینے کی بجائے اپنے اہلخانہ کو پروں کے نیچے لیا اور ہم دو سال تک دربدر پھرتے تھے۔ اس دوران بھی ابو جی نے اپنی صحافتی ذمہ داریاں جاری رکھیں وہ روزانہ لائلپور سے لاہور آیا کرتے تھے ۔ اسی شہر بدری میں عید آئی تو ابو کی انگلی تھامے اک روز جب بازار میں چلتے چلتے رک گئے تو میرے آنکھیں اٹھا کر اوپر دیکھنے پہ معلوم ہوا کہ میرے رفیق کی آنکھوں سے آنسو گر رہے ہیں اور وہ کپڑوں کی ایک دکان کے باہر کھڑے بچوں کے کپڑے دیکھ رہے ہیںمیں نے ان کا ہاتھ ہلایا تو انہوں نے کمال ضبط سے میری طرف دیکھا اور یہ جملہ کہا ’’ بیٹا !عید کے بعد آپ کو کپڑے لیکر دوں گا‘‘۔ یہ جملہ ہم نے اس کے بعد بھی کئی بار سنا۔ سو ہم عید گزرنے کا انتظار کرتے مگر عید کے بعد اگلی عید تک صورتحال یہی رہتی۔ہمارے رفیق دو انتہائوں کا نام تھے۔ وہ انتہائی نفیس لباس پہننے والے ٗ نڈر گفتگو کرنے والے ٗ شاندار پائپ پینے والے درویش تھے۔ اسی لئے ہمیں بھی انہوں نے شرقاً غرباً انتہائوں کی چھلنی سے گزارا ٗ کسی وقت سکول کے باہر باوردی ڈرائیور ایک سب سے لمبی گاڑی کے ساتھ دروازہ کھول رہا ہوتا تھا اور کبھی فیس نہ ہونے کی وجہ سے دو ٗ دو سال تک گھر میں تذکیہ نفس کیا جاتا تھا۔ (ختم شد)