شیخ حماد ایک کویتی شہری جو ہر ہفتے کویت سے سعودی عرب مذہبی فریضے کی ادائیگی کے لیے جاتے تھے مگر ہر بار وہ کویت سے سعودی عرب ڈائریکٹ جانے کی بجائے ایک نجی ایئر لائن کے ذریعے کویت سے دوبئی اور دوبئی سے سعودیہ اور اسی طرح ان کی واپسی ہوتی اور واپسی میں ان کے ساتھ کھجوریں اور آبِ زم زم کی بڑی سی گیلن بھی ہوتی۔ چندماہ مسلسل یہ پریکٹس ہوتی رہی ،اس دوران کویت کسٹم کے ایک اہلکار شیخ نصیر کو شک ہوا تو اس نے شیخ حماد کو واپسی پر روک کر پوچھ گچھ کی۔ اس دوران کسٹم اہلکاروں نے پانی کی گیلن سے عجیب سی بُو محسوس کرتے ہوئے کھولنے کا حکم دیا۔ شیخ حماد نے گیلن کا ڈھکن جیسے ہی کھولا تو پتہ چلا کہ یہ آبِ زم زم نہیں بلکہ سفید ووڈکا شراب ہے جس پر انہوں نے شیخ حماد سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اس نے برجستہ جواب دیا”واللہ معجزہ“ میں تو پانی لایا تھا یہ شراب میں کیسے تبدیل ہو گیا؟جس پر کویتی کسٹم حکام نے مزید بازپرس کی تو ان پر ہوشربا انکشاف ہوا کہ شیخ حماد جب بھی سعودیہ جاتے وہ ڈائریکٹ پرواز لینے کی بجائے براستہ دوبئی آتے جاتے اور دوبئی ایئر پورٹ پر زم زم کی گیلن خالی کرتے اور ڈیوٹی فری سے شراب خرید کر اس میں بھر لیتے۔ یاد رہے کہ کویت میں الکوحل پر پاکستان کی طرح مکمل پابندی ہے۔
قارئین! گذشتہ روز میں ٹی وی پر چلتی ہوئی یہ نیوز دیکھ رہا تھا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب نے ضیا الدین ہسپتال کراچی میں اچانک چھاپہ مارا اور پیپلزپارٹی کے ایک عظیم رہنما اور سابق وزیر اطلاعات سندھ جن کے گھر کے تہہ خانے اور لانچ سے اربوں روپے کی کرنسی برآمد ہوئی تھی۔چیف جسٹس کے اس چھاپے کے دوران ان کے ہسپتال کے کمرے سے تین بوتلیں شراب برآمد ہوئی جسے پیپلزپارٹی سندھ گورنمنٹ کے ترجمان، وزیر ناصر شاہ نے بعدازاں میڈیا کے سامنے یہ بوتلیں پیش کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ دیکھ لیجئے ان میں شراب نہیں بلکہ تیل اور شہد ہے یعنی کویت ایئر پورٹ والا معجزہ پاکستان میں بھی رونما ہو گیا۔ قارئین! پاکستان اللہ کی مرضی اور رضا سے 14اگست1947ءبمطابق 27رمضان المبارک جس دن طاقت رات ہوتی ہے یہ مبارک شب قرار دی گئی ہے وجود میں آیا، اس لیے پاکستان میں کمالات اور معجزات کی بھی بہتات ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل امیر المومنین بننے کے شوقین سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سوموٹو کا بازار گرم کر رکھا تھا کبھی مہنگا سموسہ بیچنے پر سوموٹو اور کبھی سندھ کی فنکارہ عتیقہ اوڈھو کے سامان سے ایک بوتل شراب کی برآمدگی پر سوموٹو مگر انہی سابق چیف جسٹس کے ہونہار بیٹے پر رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض نے اربوں ڈالرز رشوت کا الزام لگایا تو سارا انصاف اور عدل جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اسی طرح 2015ءکی ایک سروے رپورٹ بتاتی ےہ کہ پارسائی کا دعویدار ایک عرب ملک الکوحل درآمد کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اسی طرح وہ بھارت جہاں گائے اور بیل کی قربانی دینا قتل جتنا جرم ہے وہ گائے بیل اور بھینس کا گوشت برآمد کرنے والا دنیا کا پہلا بڑا ملک ہے اور پاکستان جہاں الکوحل پرقانونی پابندی ہے مگر صرف لاہور میں ایک پرائیویٹ سروے کے مطابق پندرہ سو گیلن شراب ہر روز بلیک مارکیٹ میں بکتی ہے۔ قارئین! جب متعلقہ ادارے اور حکومت اپنا کام نہ کررہے ہوں تو کسے کو تو کرنا پڑتا ہے۔ چیف جسٹس بہت سے معاملات میں اسی لئے فعال نظر آتے ہیں۔انہوں نے سب جیل پر چھاپہ مارا تھا،اگر میرٹ پر سب کچھ ہورہا ہوتو ایسے معائنوں اور چھاپوں کی ضرورت نہ رہے۔ جب ہسپتال میں چھاپہ مارا تو ان کے علم میں یہ شاید بات موجود تھی کہ ہسپتال میں کیا گل کھلائے جا تے ہیں۔ اپنے ساتھ چھاپہ مار ٹیم میں لیبارٹری ماہرین کو ساتھ لے لئے ہوتے تو حکومت سندھ ڈرامہ بازی کا موقع نہ ملتا۔
مملکتِ پاکستان میں عجیب تماشا لگا ہے یہی بولتیں جب علی امین گنڈاپور صاحب سے بنی گالا کے باہر پکڑ ی گئیں تو انہیں شہد کی بوتلیں تسلیم کر لیا گیا۔ قارئین! میں پینتیس سال دنیا کے ایک سو پچپن سے زائد ممالک کا سفر کر چکا ہوں مگر میں نے کسی ایک ملک میں بھی جانی واکر اور سیواس ریگل کی کمپنیوں کا بنایا ہوا شہد ابھی تک نہیں دیکھا۔دراصل پاکستان میں ایک ایلیٹ طبقہ جو ہمیشہ سے قانون سے کھلواڑکرتا چلا آ رہا ہے اور قانون کو انہوں نے اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے۔ اس کلاس کے لوگ دن کو رات اور رات کو دوپہر ثابت کر دیتے ہیں۔ ان کی اولادیں پاکستان میں پیدا ہوتے ہی خود کو حکمران تصور کرنے لگ جاتی ہیں اور یورپ، امریکہ میں چند سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستانی بیوروکریسی اور سیاست میں اپنی اپنی محفوظ پناہ گاہیں رکھتے ہیں۔ میں آج بھی دعوے سے کہہ سکتا ہوں اور چیلنج کرتا ہوں کہ پاکستان میں بیوروکریسی کے اندر ہزاروں افسران گریڈ اٹھارہ سے بائیس تک کے ہیں مگر ان ہزاروں افسران میں سے کوئی ایک بھی کسی موچی، لوہار، ترکھان، جولاہا اور حجام کی اولاد نہیں اور اب کسی بھی آفیسر کی فائل اٹھا کر دیکھ لیں وہ سکھیرا،دریشک، مزاری اور لغاری سے کم نہ ہو گا۔
قارئین! جب تک پاکستانی سیاست میں پاکستانیوں کو جاہل سمجھ کر بے وقوف بنانے کا عمل جاری رہے گا اور جب تک پاکستان کے عوام سو فیصد صاحبِ علم نہیں ہو جاتے اس وقت تک پاکستان میں جمہوریت کا خواب دیکھنا بھی ایک مذاق ہے جس ملک میں آج بھی نظامِ تعلیم یکساں نہیں یعنی ایک ایلیٹ کلاس کے خاندان کا بچہ امریکن سکول میں پندرہ سو ڈالرز ماہانہ فیس دے کر پڑھتا ہے تو اس کا مقابلہ میترانوالی کے دوکاندار رانا عبدالغفور کے بیٹے سے کس طرح کیا جا سکتا ہے جس کے پانچ بچوں کی ٹوٹل فیس آٹھ سو روپے ہے۔ یہ فرق صرف فیسوں کے درمیان نہیں بلکہ نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کے درمیان بھی ہے ۔ عمران خان صاحب نے نیا پاکستان بنانے کا وعدہ کیا ہے مجھے ان کی ہمت کا اعتراف ہے مگر ان کے ساتھ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران جو کچھ ان کی ٹیم کر رہی ہے یہ دیکھتے ہوئے نیا پاکستان بننے کے خواب ایک تجزیہ نگار ہونے کے ناطے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ چلن دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پانچ سال تو درکنار پانچ مہینوں بعد اس ٹیم ا ور کپتان کا کیا حال ہوگا۔ چیف جسٹس کے چھاپوں سے ایک دوسرا سوال بھی اٹھتا ہے کہ پاکستان کا ہر سیاست دان جو جیل جاتاہے وہ جیل ہسپتال کی یاترہ بھی ضرور کرتا ہے یہ بھی انہیں معجزات میں شامل ہے کہ جیسے ہی کسی سیاست دان کو کسی بھی جرم میں جیل جانا پڑتا ہے تو وہ صرف دو یا تین دن بعد موصوف کسی لگژری ہسپتال کے آرام دہ اور ٹھنڈے کمرے میں قیام پذیر ہوتے ہیں۔
آج دنیا کی جدید تاریخ پرنظر دوڑائیں تو کہیں بھی ایسی مثال دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ستم ظریفی یہ کہ گذشتہ دنوں جب میاں نوازشریف صاحب کو سزا سنائی گئی تو چند دن بعد ہی ان کے بیرونِ ملک علاج کی باتیں جان بوجھ کر میڈیا کی زینت بنائی جانے لگیں۔ قارئین! اقوامِ متحدہ کے فلیگ تلے دو سو سولہ رکن ممالک ہیں اور کسی ایک ملک کے قیدی کو بیرونِ ملک علاج کروانے کی اجازت نہیں ہے مگر پاکستان میں ایسی باتیں بھی ظہور پذیر ہو جاتی ہیں۔ عمران خان اور ان کی ٹیم اگر واقعی ایک نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے منافقت کو خیرباد کہنا ہوگا۔ ہمیں یا تو ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے خود کو لبرل اور جدید بنانا ہوگا وگرنہ مذہب کو سیاست کے ساتھ مکس کرنے سے ہمارا حال دھوپی اور گھاٹ والا ہوگا۔ میں ایک دفعہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہمراہ امارات کے ولی عہد شیخ محمد کی ضیافت میں مدعو تھا۔ دوران گفتگو شیخ محمد سے مکالمہ ہوا اور دوبئی میںموجود پب اور بارز کی کثیر تعداد کی موجودگی پر بات ہوئی جس پر شیخ محمد نے برجستہ جواب دیا کہ دوبئی میں اگر ہوٹل اور کلبوں کی بہتات ہے تو ہر گلی کے کارنر پر ایک مسجد بھی موجود ہے، جہاں جانے اور داخلے کے لیے کوئی فیس نہیں ہے اور جمہوریت میں یہ عوام کی مرضی ہے کہ وہ تیس درہم انٹری فیس دے کر کلب یا ڈسکو جانا پسند کرتے ہیں یا بغیر فیس کے آرام دہ مسجدوں میں جانا پسند کرتے ہیں۔ شیخ محمد کے اس جواب سے میرا یا آپ کا مکمل متفق ہونا ضروری نہیں مگر منافقت کو خیر باد کہہ کر ہمیں کسی ایک سسٹم کا انتخاب کرنا ہوگا۔ امریکہ اور یورپ میں آج بھی عیسائی ازم ان کے سرکاری مذہب کے طور پر موجود ہے اور ہر شخص کو سالانہ فیڈرل ٹیکس ادا کرتے وقت چرچ ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا ہے جو بعدازاں رومن کیتھولک پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈوکس فرقوں میںان کی آبادی کے لحاظ سے مساوی تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ کے پادری پُرآسائش زندگی گزارتے ہیں اور وہ ریاستی ترقی کے کاموں میں دخل اندازی نہیں کرتے جبکہ پاکستان میں مدرسہ ازم ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس لیے وہ ہر جائز ناجائز کام میں رکاوٹ ڈال کر دراصل اپنا حصہ وصول کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ اگر وزیراعظم عمران خان اور ان کے ہمنوا اس ایک مسئلے کو اپنا ہدف بنا کر اسے حل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یقینا نیا پاکستان معرض وجود میں آ سکتا ہے، وگرنہ صرف کمالات اور معجزات۔