جنگِ ستمبر کی یادیں .... (۲)

برِصغیرکی تاریخ میں پہلی بار ہندو اور مسلم ایک دوسرے کے قریب آئے تھے۔ اِس کی بڑی وجہ تحریکِ خلافت کا غلغلہ تھا۔ انگریز پہلی جنگِ عظیم کے دوران سلطنتِ عثمانیہ کی بیخ کنی اور خلافت ختم کرنے پر تلُے ہوئے تھے۔ اندھی طاقت کے بہیمانہ استعمال پر مسلمانانِ ہند، انگریزوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ علی برادران اِس عظیم الشان تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ چند ہی سال پہلے موہن داس کرم چند گاندھی ہندوستان میں جنوبی افریقہ سے آئے تھے جہاں اُنہوں نے اپنی عملی زندگی میں نسلی استبداد کے خلاف عدم تشدد کے ہتھیار سے کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ اُنہیں احساس ہوا کہ تحریکِ خلافت نے مسلمانوں میں جو بے پایاں جوش و خروش پیدا کر دیا ہے، اُسے ہندوستان کے سوراج کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اُنہوں نے تمام اہلِ ہند کی طرف سے مسلمانوں کے مطالبات کی مکمل تائید کی اور بحالیِ خلافت اور آزادیِ ہند کے لئے ایک لائحہ عمل پیش کیا۔ اس کے بنیادی نکات یہ تھے کہ حکومتی ملازمتوں، تعلیمی اداروں، عدالتوں اور غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور تمام خطابات واپس کر دئیے جائیں ۔ گاندھی جی کی جوگیا نہ شخصیت ہندو عوام کے لئے مہاتما کا درجہ رکھتی تھی اور اُن کی پوجا کی جاتی۔ اِس حیثیت میں وہ تقریباً تیس سال انڈین نیشنل کانگرس کے مختارِ کُل رہے اور عدم تشدد کی مالا جپتے رہے۔ اس آن پورے ملک میں خلافت کمیٹیوں نے جذبات میں ایک آگ لگا رکھی تھی۔ گاندھی جی نے جس ڈرامائی انداز میں تحریکِ خلافت کی حمایت کا اعلان کیا، اُس نے ہندوﺅں اور مسلمانوں کو یکجا کر دیا اور علی برادران کی پُرجوش قیادت نے ہندو، مسلم اتحاد کا پیغام ہندوستان کے گوشے گوشے تک پہنچا دیا۔ مسجدوں میں ہندوﺅں کو آنے کی دعوت دی جانے لگی اور مسلمان بے دھڑک مندروں میں جانے لگے۔ ہندو اور مسلم قائدین باہمی اعتماد کو فروغ دینے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ پگڑیوں کا تبادلہ کرتے۔ اِن حیرت انگیز مناظر کے درمیان ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ حالات کا رُخ یکسر تبدیل ہو گیا۔ 5 فروری 1922ءکی سہ پہر یو۔ پی کے ایک چھوٹے سے گاﺅں ’چوری چورا‘ میں پولیس اور ایک جلوس کے درمیان خوں ریز تصادم ہوا۔ ہجوم نے تھانہ نذرِ آتش کر دیا اور پولیس کے بائیس سپاہی زندہ جلا ڈالے۔ اس واقعے سے گاندھی جی کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ انہوں نے فوری طور پر تحریک ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ مسلمانوں کا اس پر ردِعمل بہت شدید ہوا۔ وہ اس خیال سے بہت دل گرفتہ تھے کہ ’فتح‘ قریب آنے والی تھی کہ ان سے غداری کی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہندو، مسلم اتحاد کافور ہوتا گیا اور پرانے تنازعات پھر اُبھرنے لگے۔ مزید بدقسمتی یہ کہ ہندو مہا سبھا اور راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ۔ ایس ۔ ایس) کے نام سے ایسی تنظیمیں طاقتیں پکڑتی جا رہی تھیں جو مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تحریک میں بہت سرگرم تھیں۔ ستم بالائے ستم یہ بھی ہوا کہ اتاترک نے خلافت کا ادارہ ختم کرنے کا اعلان کردیا جس پرمسلمانانِ ہند پر سکتہ طاری ہو گیا، مگر مشکل وقت میں ہندوستان کے مسلمانوں نے ترک بھائیوں کو جو خطیر مالی امداد فراہم کی اوراُن کے ساتھ یکجہتی کا جو عظیم الشان مظاہرہ کیا، اس نے پاک ۔ ترک دوستی کی بنیادیں بڑی مضبوط کر دیں۔
ہندو، مسلم سیاسی اتحاد کا جو مسئلہ ’میثاقِ لکھنو‘ کے عنوان سے 1916ءمیں شروع ہوا، وہ مستقل جدائی کی طرف بڑھتا گیا۔ مسٹر جناح پر یہ منکشف ہوتا جا رہا تھا کہ کانگرسی قیادت مسلمانوں کے جائز مطالبات کی طرف دھیان نہیں دے رہی اور فقط ہندوﺅں کے مفادات کی نگہبان بن کے رہ گئی ہے۔ نومبر 1927ءمیں برطانوی حکومت نے ہندوستان کے آئینی مسائل کا جائزہ لینے کے لئے سائمن کمیشن دہلی بھیجا۔ اس کا بالعموم بائیکاٹ ہوا، تاہم بیشتر ہندو اور مسلم قائدین کا خیال تھا کہ ہمیں آئینی اصلاحات کا ایک خاکہ تیارکرنا چاہئے۔ چنانچہ موتی لال نہرو کی صدارت میں فروری 1928ءمیں کل جماعتی کانفرنس منعقد ہوئی جس نے مفصل رپورٹ پیش کی جوتاریخ میں ’نہرو رپورٹ‘ سے موسوم ہے۔ اس میں ڈومینین سٹیٹس کی ذمے دارانہ حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا اور مخلوط انتخابات کی تجویز دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ دو مسلم اکثریتی صوبوں پنجاب اور بنگال میں فرقہ وارانہ نشستیں ختم کردی گئیں اور مرکزی حکومت کو غیر معمولی اختیارات سونپے گئے۔ تعلیم اور جائیداد پر مبنی محدود رائے دہی کی سفارش کی گئی جس سے مسلم ووٹوں کی تعداد دونوں صوبوں میں مزید کم ہو جاتی۔ پنجاب اور بنگال میں مسلم آبادی کا تناسب بالترتیب 57 اور 55 فیصد تھا۔
دسمبر 1928ءمیں نہرو رپورٹ پر غور و خوض کے لئے کلکتہ میں کل جماعتی کانفرنس کا اجلاس ہوا جس میں محمد علی جناح نے تین ترامیم پیش کیں:
-1 مرکزی مجلسِ قانون ساز میں مسلمانوں کی نمائندگی ایک تہائی ہونی چاہئے۔
-2 دس برسوں تک بنگال اور پنجاب کو مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے۔
-3 باقی اختیارات مرکز کے بجائے صوبوں کو منتقل کئے جائیں۔
اچھوتوں کے لیڈر اور بعدازاں بھارتی جمہوریہ کے آئین کے خالق ڈاکٹر بی ۔ آر ۔ اُمبیدکر نے لکھا ہے ان ترامیم سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوﺅں اور مسلمانوں میں خلیج بہت زیادہ وسیع نہیں تھی، مگر اسے پاٹنے کی خواہش مفقود تھی۔ (2) بدقسمتی سے یہ تنیوں ترامیم ہندو اکثریتی ووٹ سے مسترد کر دی گئیں۔ اس کے بعد آغا خاں کی صدارت میں مارچ 1929ءمیں کل جماعتی مسلم کانفرنس دہلی میں ہوئی جس میں جداگانہ انتخابات برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ا ور انہی دنوں مسٹر جناح نے اپنے چودہ نکات پیش کئے۔ یہ نکات، جن میں ہندوستان کے لئے آئین کا ایک خاکہ پیش کیا گیا، ان میں مسلمانوں، اقلیتوں اور پس ماندہ علاقوں کے حقوق و مفادات کا پورا خیال رکھا گیا۔ کوتاہ نظر ہندو لیڈروں نے یہ تمام نکات مسترد کر دئیے۔ یہ ہندو اور مسلم قیادت کی مستقل جدائی کا ایک المناک حادثہ تھا۔مسٹر جناح، جو اپنی دیانت، خلوص اور غیر معمولی سیاسی بصیرت کا سکہ جما چکے تھے، وہ حالات سے دل برداشتہ ہو کر انگلستان چلے گئے۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن