لاہور سے چین تک

متعدد ادیبوں اور دانشوروں نے چین کے سفرنامے لکھے۔ ان میں ابن انشا کا سفرنامہ ’’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘ بھی شامل ہے جو 1967ء میں شائع ہوا۔ بین الاقوامی شہرت کے حامل مصور، خطاط، ادیب اور شاعر اسلم کمال نے نومبر 1981ء میں چین کا دورہ کیا اور پھر اس دورے کی تفصیل کتابی صورت میں شائع کردی۔ یہ کتاب 1989ء میں ’’لاہور سے چین تک‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ دوسرا ایڈیشن 2019ء میں شائع ہوا۔ دوسرا ایڈیشن ہی مجھے پڑھنے کا موقع ملا کہ پہلے ایڈیشن کی مجھے ہوا بھی لگنے نہیں دی گئی۔ یہ اس لحاظ سے منفرد سفرنامہ ہے کہ اسے ایک ایسے رائٹر نے تحریر کیا ہے جو نامور مصور اور خطاط بھی ہے۔ ظاہر ہے ان کا چین کو دیکھنے کا انداز بھی مختلف ہے جو ہمیں 164 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ 25 ابواب پر مشتمل اس سفرنامے میں کسی کی تقریظ شائع نہیں کی گئی البتہ فلیپ میں سفرنامہ نگار اسلم کمال لکھتے ہیں ’’لاہور سے چین تک‘‘ تحریر میں سفرنامہ کے کسی معروف معیار پر پورا اترنے کے لیے تگ ودو کو میں نے اپنے مزاج سے باہر جانتے ہوئے اس وحدت کی سالمیت سے انحراف پسند نہیں کیا جس کی محیط میں ایک مصور، ایک شاعر اور ایک حُسن پرست نے کسی اور طرزِ اظہار کی تلاش میں سفر کو وسیلۂ ظفر جانا ہے‘‘ انتساب میں علامہ اقبال کا یہ مصرع شائع کیا گیا ہے:۔؎
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
علامہ اقبال کی نظم ’’ساقی نامہ‘‘ میں یہ شعر شامل ہے:۔؎
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
چین، ماؤزے تنگ کا دیس ہے۔ ماؤزے تنگ 9 ستمبر 1976ء میں آنجہانی ہو گئے۔ کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو تاریخ اپنے ہاتھوں سے بناتی اور سنوارتی ہے، پھر انسانی تاریخ میں ان کا نام انمٹ حروف میں لکھا جاتا ہے مگر بعض ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے ہاتھوں سے تاریخ بناتی ہیں۔ کامریڈ ماؤزے تنگ ایسی ہستی ہیں جس نے انسانی تاریخ نئے سرے سے بنائی۔ نوع انسانی کیلئے اور اپنی قوم کیلئے ایسے کام کیے کہ ان کے افکار اور کام زندہ رہیں گے۔ چیئرمین ماؤزے تنگ مر کے بھی امر ہو گیا۔ اسلم کمال لکھتے ہیں ’’ماؤ ہال میں داخل ہوں تو سامنے ماؤ کا سفید فام مجسمہ کرسی پر بیٹھے مسکراتے ہوئے استقبال کرتا ہے۔ اس مجسمہ کے دونوں جانب سے راستہ عقبی ہال میں جاتا ہے، جہاں درمیان میں شیشے کے تقریباََ 12X8 مستطیل شوکیس میں ماؤ کی حنوط شدہ لاش پڑی ہے۔ چیئرمین ماؤ سیدھے لیٹے ہوئے، آسمان کو دیکھتے ہوئے،سرخ کمبل شانوں تک ہے۔ ماؤ کے چہرے کی سیدھ میں چھت میں روشنی کیلئے مربع شکل میں روشن دان ہے۔ شوکیس کے چاروں طرف سرخ رنگ گملوں میں للی کے پھول کھلے ہیں‘‘ یہ نقشہ ایک مصور ہی کھینچ سکتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں کئی ہفتوں سے لاکھوں کشمیریوں کا لاک ڈاؤن جاری ہے۔ یہاں انسانی حقوق اور انسانی صورت حال تشویش ناک ہے۔ بھارت کے اس اقدام سے امن اور سلامتی کو خطرہ ہے۔ اس موقع پر چین نے کھل کر اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ اسلم کمال نے تیس برس قبل اپنے سفرنامہ چین میں یہ فقرہ لکھا ’’گریٹ ہال میں وائس چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی بمع چینی ثقافتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ ثقافتی مسائل اور پروگرام کا ذکر ہوا۔ نئے عزائم اور ارادوں کا تبادلہ ہوا۔ سفارشات تیار ہوئیں۔ پھر روسی جارحیت زیر بحث آئی اور افغانستان کا ذکر ہوا تو وائس چیئرمین نے کرسی سے اٹھ کر غصے میں لال پیلا ہو کر مکہ میز پر مارا اور کہا ’’ہمارے دوست پاکستان پر کسی بھی طرف سے اگر بالادستی تھوپنے کی کوشش کی گئی تو ایک سو کروڑ چینی عوام، پاکستانیوں کے شانہ بشانہ لڑیں گے‘‘ ۔ 1985ء کے لگ بھگ اسلم کمال کا بچپن کے حوالے سے میں نے ان کا انٹرویو کیا تھا تو ان کا کہنا تھا ’’چین کے سفر پر روانگی کے دوران مجھے جس چیز کو دیکھنے کا سب سے زیادہ اشتیاق تھا، وہ دیوارِ چین ہی تھی جو چھٹی ساتویں جماعت کی کتابوں میں پڑھ رکھا تھا اور دیوار چین کی سیر کرتے ہوئے مجھے بچپن خصوصیت سے یاد آیا‘‘ اسلم کمال سفرنامے میں لکھتے ہیں ’’دیوار چین کی سیر کی۔ ایک زینے سے چڑھ کر دیوار میں داخل ہوئے۔ دیوار ایک سڑک ہے جس میں ان گنت انسان چڑھ کر گولے بارود اور خورونوش کے سامان سے لدے ہوئے ریڑھے کھینچا کرتے تھے اور یوں اگلے مورچوں میں لڑتی فوج کا سامانِ رسد پہنچتا تھا۔ دیوارِ چین آٹھ عجائبات عالم میں سے ایک ہے‘‘ مینر نیازی نے بھی چین کا دورہ کیا تھا ان کا کہنا تھا ’’دیوارِ چین پر سب چڑھ رہے تھے۔ میں چین دیکھنے آیا ہوں اس پر چڑھنے نہیں‘‘ تقریباََ تیس برس قبل اسلم کمال نے مجھے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’میں نے بیرون ملک متعدد سفرکیے۔ سفرنامہ نگار بننے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ چین کا سفر کچھ ایسا سفر تھا کہ مجھ میں لکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ یہ سفرنامہ پہلے ’’نقوش‘‘ میں چھپا۔ چین میں ثقافتی اور تہذیبی سطح پر اتنی گہرائی ہے۔ اس کا پھیلاؤ اتنا ہے۔ اگر آدمی دس بار بھی چین جائے تو اس کا دل نہیں بھرے گا‘‘ ۔ اسلم کمال نے چین کے شہر ہانگچو کا ذکر دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ انکے بقول جس نے ہانگچو شہر نہیں دیکھا، اس نے چین نہیں دیکھا ۔ حال ہی میں اسلم کمال کی کتاب ’’واقعات‘‘ بھی شائع ہوئی ہے۔ ’’واقعات‘‘ ایک آپ بیتی ہے جو ’’الحمرا‘‘ میں قسط وار شائع ہو رہی ہے۔ اس کتاب میں بھی اسلم کمال نے اپنی انفرادیت کو قائم رکھا ہے۔ ’’واقعات‘‘ میں دلچسپ انکشافات بھی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن