آج کے اس کالم لکھنے کا مقصد کسی طور پر بھی کسی کے خلاف تنقید نہیں بلکہ ان چند سطور کو لکھنے کا میرا مقصد صرف اور صرف اس فکری سوچ کو بیدار کرنا ہے کہ آج بھی اگر ہم نے اپنے معاشرے میں جاری عدم مساوات کی طرف توجہ نہ دی تو ہم مستقبل قریب میں کن حالات بلکہ حادثات سے دوچار ہو سکتے ہیں تو بیجا نہ ہو گا۔ دو تین روز پہلے اندرون شہر میرا اپنے ایک دوست کے دفتر جانا ہوا۔ پچھلے سال میرے اس دوست کے بیٹے نے LUMS سے گریجوایشن کرنے کے بعد چند ماہ کیلیئے اپنے باپ کے دفتر کو جوائن کیا اور پھر مزید تعلیم کیلیئے لندن چلا گیا۔ ان دنوں یہ بچہ اپنی پڑھائی کے باوجود نہ صرف کاروباری معاملات میں آن لائن اپنے باپ کی مدد کر رہا ہے بلکہ اس بات سے بیخبر کہ لاہور شہر کا اپنا ایک الگ مزاج ہے اس نے اپنی جدید تعلیم اور تربیت کی روشنی میں اپنے باپ کے کاروبار میں نئی ٹیکنیس اور سٹرکچرل ریفارمز کے ساتھ ساتھ اپنی آرگنائزیشن کو ملٹی نیشنل آرگنائزیشن کا رنگ دینا بھی شروع کر دیا ہے۔ وہ لاہور شہر جو کبھی باغوں اور کالجوں کے شہر سے جانا جاتا تھا اور جسکے باسی اپنی مہمان نوازی اور ظرافت کی حِس میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے اسکے قدیم علاقے میں واقع دوست کے دفتر جب پہنچا تو پْرانی یادیں تازہ کرنے وہاں اردگرد کے دوسرے دوست بھی آ گئے۔ جیسے پْرانے لاہور کا کلچر ہے کہ مہمان گھر کے اندر قدم بعد میں رکھتا ہے لیکن برتن کھڑکنا پہلے شروع ہو جاتے ہیں۔ اج بھی حسب روائیت دیکھنے کو وہی منظر ملا لیکن جس چیز نے فوراً مجھے اپنی طرف متوجہ کیا وہ ٹیبل اور اسکے اوپر لگنے والے برتنوں کی نفاست تھی جو اس بات کی عکاس تھی کہ لندن بیٹھا لندن بچہ کس خوبصورتی اور لگن کے ساتھ دفتر کی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بدل رہا ہے اور بتا رہا تھا کہ جب تبدیلی لانی ہو تو سات کوس دور بیٹھے بھی معاملات کو کیسے سْدھارا جا سکتا ہے۔ اس نفاست کو دیکھ کر مجھ سمیت دوسرے دوستوں نے اْس بچے کے ساتھ آفس بوائے کی تعریفیں کرنا بھی شروع کر دیں۔ جب یہ باتیں چل رہی تھی تو اسی لمحے شرکائ محفل میں سے ایک اس آفس بوائے سے یہ پوچھ بیٹھا کہ بچے اتنی نفاست سے تم برتن لگا رہے ہو کیا اس سے پہلے کسی ہوٹل میں کام کرتے رہے ہو۔ اتنی بات پوچھنے کی دیر تھی کہ وہ نوجوان پْرنم آنکھوں سے بولا یہ پہلا تجربہ ہے۔ حالات کی سنگینی اس مقام پر لے آئی ہے کہ گریجویٹ ہونے کے باوجود اس آفس بوائے کی جاب کو غنیمت جان رہا ہوں۔ یقین جانیئے ان الفاظ کو سْنتے ساتھ ہی تمام شرکاء محفل سکتے کے عالم میں آ گئے۔ لاہور شہر کی ایک اور صفت ہے کہ اسکے پْرانے رہنے والوں کی زبان پر بذات خود نہ اْنکا اپنا اور نہ کسی دوسرے کا کنٹرول ہوتا ہے۔ اس سکوت کو توڑتے ہوئے اسی محفل میں بیٹھے ایک اور دوست نے اپنے مخصوص لاہوری لہجے میں پھبتی کسی کہ "لو جی اویں تے نہی کیندے اللہ مہربان تے گدھا پہلوان"۔ دوسرا فقرہ جو اس نے چست کیا وہ سیاسی ہونے کی وجہ سے میں یہاں رقم نہیں کرونگا۔ البتہ اسی لمحے ایک اور لاہورئیے نے لقمہ دیا کہ "سدھی طرح اپنے آپ نوں سامنے رکھ کہ کیوں نہی کیندے"اسی مڈل تے میٹرک فیل مارکیٹ وِچ سیٹھ تے اے غریب گریجویٹ آفس بوائے"۔ ابھی یہ ریمارکس ابھی چل ہی رہے تھے کہ ہمارے دوست جنکا یہ کاروبار ہے اْنھوں نے فورا اپنے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کو بلوایا اور اْس سے استفسار کیا کہ تْم نے اس لڑکے کو یہ جاب دیتے وقت اسکا تعلیمی معیار نہیں دیکھا جسکا جواب مجھے کیا ہم سب شرکاء محفل کو ایک انجانے خوف میں مبتلا کر گیا۔ ایچ آر کا جواب تھا اپ گریجوئیٹ کی بات کر رہے ہیں اس نے حلفاً بتایا کہ بیروزگاری اس انتہاء تک پہنچ چکی ہے کہ اس بیروزگاری سے تنگ کئی ماسٹر ڈگری ہولڈر پیکنگ ڈیپارٹمنٹ میں بطور پیکر کام کرنے کے لیے بھی آئے ہیں۔ ایچ آر بتانے لگا کہ بیشک اس بچے نے اپنی تعلیمی قابلیت بھی بتائی تھی لیکن اسکے ساتھ اس نے جن الفاظ میں اپنے گھر کے حالات کا نقشہ کھینچا اسکے بعد میرا ذہن کچھ بھی اور سوچنے کی صلاحیت سے ماؤف ہو گیا اور میرے پاس جو جاب تھی میں نے اسے آفر کر دی اور ساتھ اسے یہ بھی کہہ دیا کہ یاد رکھو محنت کرنا جْرم کرنے سے کہیں بہتر ہے۔ ایچ آر کی بات کاٹتے ہمارے دوست نے اْسی وقت اس سے کہا کہ اس جاب کیلیئے فورا کوئی اور بندہ ڈھونڈو اور اس بچے کے تعلیمی معیار کے شایان شان اسے سیلز ڈیپارٹمنٹ میں شفٹ کرو۔ خوف خْدا رکھنے والا میرا دوست جب یہ آرڈر کر رہا تھا تو میں نے اسے صرف اتنا کہا کہ تمہارا یہ جذبہ قابل قدر لیکن جتنے دن تمہارے نئے بندے کا انتظام نہیں ہو جاتا اس بچے کو یہی کام کرنے دو۔ شہری دوست چلا اْٹھے" اْوے وڈے سائنسدان اے کیوں" میرا جواب تھا "dignity of labour" جس پر ایک جوشیلا بولا مڈل تے میٹرک پاس سیٹھاں نال آسان لفظاں وِچ گَل کرو۔ میرا جواب تھا جس ملک میں مڈل اور میٹرک پاس وزیر رہے ہوں اور جہاں اپ جیسے چونی سیٹھ ہوں وہاں کسی کو کیا پتہ کہ محنت کی کیا شان ہوتی ہے۔ یہ بات کرتے وقت جہاں میں یہ اطمینان محسوس کر رہا تھا کہ اب ہمارے ہاں نوجوان طبقے میں ایک شعور جڑ پکڑ رہا ہے کہ کسی قسم کی محنت کرنے میں کوئی عار نہیں وہاں میری فکری سوچ مجھے فکر کی ان گہرائیوں میں لے گئی کہ بیروزگاری کا یہ ڈرٹی بم جو ایٹم بم سے خطرناک ہو سکتا ہے اسکے بارے کیا ہم میں سے کوئی ایک سوچ رہا ہے کہ یہ ہمیں کس سانحے سے دوچار کر سکتا ہے۔
ڈرٹی بم
Sep 04, 2019