ارادہ ہو تو راستے خودبخود نکل آتے ہیں۔ ہم گزشتہ 72 برس سے اپنے عدالتی نظام کی تباہی اور اس میں در آنے والی کذب بیانی کے بے پناہ عمل دخل کا نوحہ پڑھتے آئے ہیں۔ فریقین کو جھوٹ سچ کی پٹیاں پڑھا کر پولیس مرضی کے مقدمات تیار کرتی ہے اور عدالتوں کے لیے جھوٹ اور سچ کو الگ الگ کرنا تقریباً ناممکن اور پھر عدالت عظمیٰ نے فیصلہ کر لیا کہ جھوٹ کی بنیاد پر قائم اس نظام کو اب برباد ہونا ہے۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ کراچی پولیس کی ایک تقریب میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نہایت دلسوزی سے کہا تھا کہ دین میں دروغ سے بڑا گناہ کوئی نہیں اور ہمارے ہاں شاید ہی کسی کو اس سے دریغ ہو۔
نزاعی بیان کو دنیا بھر میں اس لیے قابل اعتبار سمجھا جاتا ہے کیونکہ بالعموم ایک مرتے ہوئے شخص سے جھوٹ کی توقع نہیں کی جاتی۔ مگر ہمارے ہاں لوگ نزاعی بیان میں بھی ہیرا پھیری کر جاتے ہیں اور فریق ثانی کے بعض بے گناہوں کو بھی ملوث کر جاتے ہیں اور یہ سب پولیس کی امانت سے ہوتا تھا۔ الحمد للہ وقت بدل گیا اور فیصلہ ہو چکا کہ اب جھوٹے گواہوں اور ان کے مربی پولیس والوں کو بھی وہی سزا ملے گی ، جو مجرم کیلئے ہے۔