مکرمی! اس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام و افراد کی ترقی کا انحصار علم و تعلیم پر ہے اس لیے معاشرہ اپنے نظامِ تعلیم کی ترقی کے لیے ہمیشہ کوشش کرتا ہے۔ مطالعہ و مشاہدہ بتاتا ہے کہ ماضی میں علم و فنون کی ترقی کے لیے علماء اور مفکرین نے زبردست محنت و کوشش کی۔ ان کے پیشِ نظر ہمیشہ ایک ہی معیار رہا ہے یعنی اہلیت اور قابلیت۔ لیکن آج ہمارے تعلیمی ادارے لکیر کے فقیر ہیں۔ حکومتی نصاب پر عمل پیرا ہونے کے لیے مجبور ہیں۔ موجودہ نظامِ تعلیم، غور و فکر، مشاہدہ اور تجربہ کی بجائے طلباء کو رٹے اور تقلید کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ ادارے مالی مجبوریوں کے باعث بے بس ہیں۔ ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی طبقاتی نظام تعلیم موجود ہے۔ ہمارے ہاں تعلیمی فیصلہ سازی میں متعلقہ افراد کی عدم شرکت بھی نظامِ تعلیم کو بگاڑنے کا ایک اہم سبب ہے۔ صاحبِ اقتدار اور ہمارے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ کسی قسم کی مداخلت نہ کریں اور ن ظامِ تعلیم چلانے کے لیے ان کی تربیت کا انتظام کرنا چاہیے۔ انگریزی کی بجائے ذریعہ تعلیم اُردو ہونا چاہئے کیونکہ طالب علم زیادہ دیکھنا چاہتا ہے اور بہتر سیکھنا چاہتا ہے۔ غیر ملکی زبان سیکھنے میں وقت اور رقم کا ضیاع ہوتا ہے۔ اس لیے قومی زبان کے استعمال سے بہت مفید کام آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ (سلمیٰ بابر ، اسلامیہ کالج کوپر روڈ لاہور)
پاکستان کا نظامِ تعلیم اور درپیش مسائل
Sep 04, 2019