1871ء میں اوٹو وان بسمارک، عظیم جرمن سلطنت کے پہلے چانسلر بنے تو انکے ذہن میں چار سو برس قبل کے یورپ کی 116 سالہ جنگ (1337-1453) کی تلخ تاریخ بسی ہوئی تھی۔ اوٹو وان بسمارک کے چانسلر بننے سے قبل برطانیہ اور فرانس کا جرمنی کے خلاف گٹھ جوڑ جاری تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح یورپ میں جرمنی کی طاقت کو کم کیا جائے تاکہ افریقہ ، انڈیا ، مشرقی ایشیا اور مشرق بعید میں ان کی نوآبادیاں قائم رہیں اور جرمنی کو اپنی نوآبادیاں بڑھانے سے روکا جائے۔ یوں فرانس اور برطانیہ مل کر جرمنی کیخلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ اوٹو وان بسمارک نے اپنے انیس سالہ دور چانسلری میں جنگ کو روکے رکھنے کی حکمت عملی اختیار کیے رکھی۔ عظیم جرمنی کے شمال میں بحیرہ بالٹک ڈنمارک اور بحیرہ شمالی، جنوب میں اٹلی اور بحیرہ اوقیانوس ، مغرب میں فرانس اور مشرق میں پولینڈ تھا۔ جب اوٹووان بسمارک کو بلقان میں روس کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے اکسایا گیا تو بسمارک نے جواب دیا کہ بلقان کی حیثیت جرمنی کے ایک سپاہی کی ہڈیوں کے برابر بھی نہیں۔ یوں جنگ سے کنارہ کشی کرتا رہا۔ اوٹو وان بسمارک نے برطانیہ اور فرانس اور روس کی آپسی آمدورفت کے لیے جرمنی کی سرزمین پر سے راہداری بند کر دی تھی۔ یوں جرمنی کو ، روس، فرانس اور برطانیہ کے گٹھ جوڑ اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھا۔ 1890ء میں قیصر ولیم دوئم نے بلاوجہ اوٹووان بسمارک کو ہٹا دیا۔ نیا چانسلر کیپری وی کی شخصیت کسی صورت بسمارک کے برابر نہیں تھی۔ 1908ء میں جرمن، آسٹریا نے حملہ کر کے بوسنیا ہرزوگووینیا پر قبضہ کیا۔ یہاں سے بوسنیا ہرزوگووینیا کی آزادی کی جدوجہد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ 28 جون 1914ء کو ہیمبسرگ تخت و تاج کے وارث فرانز فرڈیننڈ اور اس کی بیوی کو بوسنیا کے حریت پسندوں نے حملہ کر کے مار دیا۔ جرمنی نے آسٹرو ہنگری سلطنت کے بادشاہ سے ملکر بلقان پر جنگ کی منصوبہ بندی کی۔ یہ جرمنی کی توسیع پسندی عزائم کی تکمیل کی خاطر کی گئی تاکہ وسطی یورپ میں اپنی طاقت میں اضافہ کرے۔ بوسنیا ہرزوگوینیا پر قبضہ کر کے آسٹرو ہنگری اور جرمنی نے اپنے ممالک کو ایک ایسے بلیک ہول ٹنل میں دھکیل دیا کہ دونوں کی سلطنتیں ریزہ، ریزہ ہو گئیں۔ پہلی جنگ عظیم (1914-1918) کی تیاریوں کے دوران روس کے رہنمائوں نے اپنے بادشاہ زار نکولاس دوئم کو مشورہ دیا کہ وہ جرمنی کے ساتھ جنگ میں اُلجھنے سے گریز کرے مثلاً روس کے رہنماء گوں چاکو وَ کا کہنا تھا کہ جنگ کر کے کسی علاقہ پر قبضہ کرنے سے قابض ملک مضبوط نہیں ہوتا بلکہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے متعلق روسی رہنماء اڈی نورو کا کہنا تھا کہ ماضی کی جنگوں کے تجربہ سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مفتوح اور فاتح ممالک میں معاشرتی انقلاب آئے گا جس میں جو بے راہ روی کا طوفان اٹھے گا اسے کوئی نہیں روک سکے گا۔ یوں آنے والی نسلوں کے لیے تباہ کن معاشرہ تشکیل پائے گا۔ مگر روس کے زار نکولاس دوئم نے ان خدشات پر کان نہیں دھرا اور جنگ میں کود پڑا۔ پہلی جنگ عظیم میں ایک کروڑ کے قریب انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ بوسنیا ہرزگووینیا کے عوام نے 1914ء میں جرمن شاہی جوڑے کو قتل کر کے آزادی کی جدوجہد کا اعلان کیا۔ کئی سلطنتیں تباہ ہوئیں، کئی حاکموں کے غلام رہے مگر آزادی کی شمع بوسینیا کے سرب طالب علم Gavrilo Princip گیو ریلو پرنسپ نے روشن کی اس کی لاٹ بجھائی نہیں جا سکی اور کئی ادوار سے گزر کر آزادی حاصل کر کے رہے۔
کشمیر میں آزادی کی جدوجہد پاک و ہند کی آزادی سے بہت پہلے شروع ہو چکی تھی۔ اس وقت کشمیری ڈوگرہ راج سے آزادی چاہتے تھے۔ 13 جولائی 1931 ء کو نماز کے لیے اذان دیتے ہوئے ایک ایک کر کے 22 موذن شہید ہوئے مگر اذان مکمل کرلی گئی۔ یہاں سے کشمیر کی آزادی کی جنگ شروع ہوئی۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان آزاد ہوا تو آزادی کے قانون کے مطابق ، کشمیر مسلم اکثریتی اسٹیٹ ہونے کے ناطے اور جغرافیائی سرحدوں کے ملے ہوئے ، ہونے کی بدولت پاکستان کا حصہ بنتا ہے۔ اس لیے ریاست جموں اور کشمیر پاکستان میں شامل ہونی چاہیے تھی۔ انڈیا نے سری نگر میں فوجیں اُتار کر غیر قانونی طور پر جموں اور کشمیر کی ریاست پر قبضہ کیا۔ انڈیا کے ساتھ پہلی جنگ پاکستان نے کشمیر کے محاذ پر لڑی اسی جنگ کے دوران انڈیا کی درخواست پر اقوام متحدہ نے قرارداد پاس کی کہ جنگ بند کی جائے اور پُرامن طور پر کشمیری عوام کو حق رائے دہی استعمال کرنے دیا جائے گا۔
1982ء میں برطانیہ میں فوجی تربیت ختم ہونے کے بعدمیں سویڈن سیر کرنے گیا۔ وہاں کالمار کے قلعے کے مالک سے‘ جو کہ رینجر کے ریٹائرڈ کرنل تھے اور سویڈن کے وزیر خارجہ کے پڑ پوتے تھے‘ تعارف کے بعد گفتگو ہوئی تو انہوں نے مجھ سے افغانستان میں روسیوں کے جنگ کے متعلق پوچھا۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، وہ خود گویا ہوئے کہ مذہبی عقیدہ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ 1857ء میں انگریز نے گائے کی چربی اور سؤر کی چربی کارتوس میں استعمال کیا تو ہندو اور مسلمان فوجیوںنے وہ کارتوس استعمال کرنے سے انکار کرکے بغاوت کردی جس کی لپیٹ میں پورا ہندوستان آ گیا۔ روسی، الحاد اور اشتراکی نظام کے ساتھ افغانستان میں گھس آئے۔ وہاں کے مسلمانوں کو اپنا دینی عقیدہ خطرے میں نظر آیا۔ افغانستان میں روس کی شکست یقینی تھی۔ 1982ء میں افغانستان میں روس کی جنگ زوروں پر تھی۔ آخر چار برس بعد روسی شکست خورد ہ فوجیں دریائے آمو پار کر کے روس واپس چلی گئیں۔ کشمیر میں آزادی کی شمع اس وقت روشن ہوئی جب ڈوگرہ حکمرانوں نے مسلمانوں کی عبادتگاہوں پر تالے لگا دئیے اور ان پر دین اسلام کی پیروی کرنے میں رکاوٹیں ڈالیں۔ 1931ء کے واقعات کو اٹھاسی (88) برس گزر گئے اور ایسے واقعات گزشتہ 88 برسوں میں تسلسل کے ساتھ آج تک جاری ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں کی کوئی زندگی نہیں۔ انڈین فوجی درندے انہیں ڈھور ڈنگر کی طرح سمجھتے ہیں اور ان پر انسانی تاریخ کے بدترین مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ آزاد انڈیا کی تاریخ میں اعتدال پسند رہنما وزیر اعظم بنتے رہے مگر گزشتہ چھ برسوں سے نریندر مودی وزیر اعظم ہیں۔ مودی نے گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اپنے آپ کو آر ایس ایس کی دہشت گرد تنظیم اور اکھنڈ بھارت اور ہندو توا کا خطرناک اور بدترین دہشت گرد ثابت کیا اور اکھنڈ بھارت اور ہندو توا سوچ رکھنے والے ہندوئوں کو گویا پیغام دیا کہ وہ ہی ان کے خواب پورا کر سکتا ہے۔ اس لیے گزشتہ پانچ برسوں کے لیے مودی وزیر اعظم بنائے گئے۔ مودی کی حکومت کی ناکامیوں کے باوجود ، اسکی مسلمانوں کے ساتھ نفرت پاکستان دشمنی اور جموں و کشمیر کی ریاست کو انڈیا میں ضم کرنے کے ایجنڈے کی بدولت ہندوئوں نے اسے دوبارہ بڑی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم بنا لیا۔ مودی کی حکومت کو امریکہ اور اس کے حلیف سعودی عرب اور اسرائیل کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت برصغیر پاک و ہند میں خطرناک جنگ کی صورت حال بنائی گئی۔
گزشتہ 88 برسوں کے دوران ریاست جموں و کشمیر میں ظلم و بربریت اور فوجی قوت استعمال کر کے عوام کی آزادی کی جدوجہد کو کچلنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اب کشمیریوں کی تیسری نسل نے آزادی کے لیے ہتھیار اُٹھا لیے۔ شہید برہان وانی نے اپنے لہو سے کشمیر کی آزادی کی شمع کو بھڑکا کر الائو کی صورت دی ہے جس کی لاٹ مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب تک اقوام عالم کو دکھائی دے رہی ہے۔ انڈین فوج کی بربریت سے کشمیر یوں کی چیخ و پکار پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے مگر تمام ممالک اندھے، بہرے اور گونگے بنے ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار ممالک خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ گہرائی سے سوچا جائے تو انڈیا کے حالیہ اقدامات اور کشمیر کی سپیشل حیثیت ختم کرنے سے نریندر مودی نے انڈیا کو ایک گہرے بلیک ہول یا اندھے کنوئیں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے محفوظ واپسی کے تمام راستے مخدوش ہو چکے ہیں۔ انڈیا کی مملکت اسی طرح ریزہ، ریزہ ہو گی جس طرح بوسنیا کی آزادی کی جدوجہد نے یورپ کو جلا کر سلطنتوں کو ریزہ ریزہ کیا تھا۔ جس طرح افغانستان میں روسیوں کے خلاف جہاد نے سوویت یونین کو بکھیر کے رکھ دیا۔ جس طرح حال میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شرمناک شکست دی اور امریکہ کو کھربوں ڈالر کا مقروض بنا د یا۔ جموں و کشمیر کے معاملہ میں پاکستان کا انڈیا کے ساتھ حساب ختم نہیں ہوا۔ ابھی تو شروع ہوا ہے۔ نریندر مودی سمجھ بیٹھا ہے کہ کشمیری عوام کمزور اور نہتے ہیں۔
کشمیری عوام پر جتنا ظلم ہو گا اتنا ان کی قوت ارادی اور آزادی حاصل کرنے کی لگن میں اضافہ ہو گا۔ کشمیری عوام کی آزادی کی جدوجہد تیسری نسل کے ہاتھ میں ہے۔ یہ نوجوان پڑھے لکھے ذہین اور اپنے حقوق کے لیے حساس کشمیری ہیں۔ انہوں نے ہتھیار اُٹھا لیے ہیں اور گوریلا جنگ کا آغاز کیا ہے۔ تمام پیرو جوان کشمیری ان کی حمایت کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں اور سیاسی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ کشمیر کی وادی گوریلا جنگ کے لیے نہایت موزوں ہے۔ کشمیر میں جاری گوریلا جنگ زور پکڑتی جا ری ہے۔ آہستہ آہستہ کشمیر کی وادیاں ندیاں اور دریا انڈین آرمی کے خوں سے بھر جائیں گے۔ ا نڈیا معاشی طور پر سخت نقصان اٹھائے گا مگر آزادی کی منزل پانے تک گوریلا جنگ طویل تو ہو سکتی ہے ختم نہیں ہو سکتی۔
انڈیا پاکستان کی جنگوں کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی انڈیا پر کشمیر میں دبائو بڑھا ہے، وہ پاکستان پر حملہ کر دیتا ہے۔ اب بھی انڈیا نے پاکستان پر حملہ کی تیاریاں کی ہوئی ہیں اور کسی موقع کی تاک میں ہے۔ یہ جنگ کیا صورت اختیار کرتی ہے ، وہ تو اللہ بہتر جانتا ہے۔ مگر حالات جس سمت بڑھ رہے ہیں، اس سے نظر آتا ہے کہ خطہ میں ایٹمی جنگ ناگزیر اور انسانیت بربادی کے قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی ہے۔ اقوام عالم کے پاس اب بھی وقت ہے، جموں و کشمیر میں انڈین فوج اور حکومت کا ظلم و بربریت بند کروائیں۔ انڈیا کی درندہ فوج کشمیر سے نکلوائیں اور جموں و کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دلوائیں یعنی وہاں پر استصواب رائے کرائیں۔ ایٹمی جنگ کی تباہی سے دنیا کو بچانے کا یہی واحد طریقہ ہے۔