وزیراعظم کا مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زو ر اور پاکستان بھارت تنائو سے دنیا کو خطرہ لاحق ہونے کا عندیہ
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر مذاکرات سے ہی حل ہوگا جبکہ پاکستان بھارت تنائو سے دنیا کو خطرہ ہوگا۔ گزشتہ روز لاہور میں ’’سکھ کنونشن‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت کو آر ایس ایس لے کر چل رہی ہے‘ وہاں اقلیتیں خطرے میں ہیں‘ آج مسلمان نشانہ ہیں‘ کل دوسروں کی باری ہے‘ خود بھارت کو بھی آر ایس ایس نظریے سے خطرہ ہے۔ انہوں نے سکھوں کو ’’ملٹی پل‘‘ ویزے جاری کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ انہوں نے وزیراعظم بنتے ہی بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی۔ مودی کو فون پر کہا کہ دونوں ممالک کے ایک جیسے مسائل ہیں مگر مودی کی جانب سے انہیں کوئی جواب نہ ملا۔ انہوں نے کہا‘ میری خواہش ہے کہ مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل ہو لیکن جو لوگ جنگ کی باتیں کرتے ہیں‘ انہوں نے تاریخ نہیں پڑھی‘ جنگ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا اور جنگ کے بعد مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی طاقتیں ہیں‘ ان میں تنائو سے دنیا کو خطرہ ہوگا۔ انہوں نے باور کرایا کہ آر ایس ایس جو حرکتیں کررہی ہے‘ کوئی مذہب اسکی اجازت نہیں دیتا اور جس طرف یہ بھارت کو لے جا رہے ہیں‘ اس میں کسی اور کی جگہ نہیں۔ آر ایس ایس صرف ہندوتوا چاہتی ہے۔ اگر اسے نہ روکا گیا تو یہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی تنگ کریگی۔
عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی فوجوں کے مظالم کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ کشمیر میں 29 روز سے کرفیو لگا ہے‘ لوگوں کے پاس کھانا پینا ختم ہو چکا ہے‘ یہ انسانیت کیخلاف ہے۔ انکے بقول کشمیر میں مسلمانوں کے بجائے سکھ بھی ہوتے تو وہ ان کیلئے آواز بلند کرتے‘ ہم سکھ برادری کیلئے ہر قسم کی آسانیاں پیدا کرینگے۔ پاکستان کی اقلیتیں برابر کے شہری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم مسئلہ کشمیر ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرسکتے تھے مگر افسوس کہ ہماری پیشکش پر بھارت کا رویہ غیرذمہ دارانہ رہا۔ انکے بقول بی جے پی حکومت اس نظریے پر چل رہی ہے جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا تھا۔ بھارت میں بی جے پی حکومت صرف ہندو راج چاہتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں قیام کے دوران متعدد دیگر مقامات پر بھی خطاب کیا۔ قبل ازیں وزیراعظم نے اسلام آباد میں پاک فضائیہ کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا او ریادگار شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔ انہوں نے ملک کی فضائی سرحدوں کے دفاع اور بطور خاص ماہ فروری کے دوران پاک فضائیہ کی شاندار کارکردگی کی تعریف کی اور کہا کہ پاک فضائیہ کے 27 فروری والے کارنامے پر پوری قوم انکی جرأت اور بہادری کو سلام پیش کرتی ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ جس دو قومی نظریے نے قیام پاکستان کی راہ ہموار کی اور اسکی بنیاد رکھی وہ مسلمانوں کی نسل کشی پر آمادہ ہندو بنیئے کی رزیل ذہنی سوچ کا ہی پیدا کردہ ہے۔ ہندو کو برصغیر میں مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت کا بدلہ لینے کا جنون تھا جو وہ مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرکے چکانا چاہتے تھے چنانچہ ہندو لیڈر شپ نے ہندوتوا کے طے شدہ ایجنڈے کے تحت ہندوستان میں ساہوکارانہ نظام قائم کرکے مسلمانوں سے غلاموں جیسا سلوک روا رکھنا اور ان کا عرصۂ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے مسلمانوں کیلئے اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے بھی بند کر دیئے اور انکی مذہبی آزادیاں بھی سلب کرلیں جبکہ مساجد میں نماز کی ادائیگی کیلئے جانیوالے مسلمانوں پر بلوئوں کا سلسلہ شروع کردیا اور گائوماتا کے آگے گھٹنے ٹیک کر وہ گائے ذبح کرنے اور اس کا گوشت کھانے والے مسلمانوں کے قتل عام کی نوبت لے آئے۔ علامہ اقبال کے 1938ء کے خطبۂ الہ آباد سے پہلے تو تو ہندوستان کے مسلمانوں میں اپنے لئے الگ مملکت کی سوچ تک پیدا نہیں ہوئی تھی اور وہ بطور مسلمان اپنا تشخص تسلیم کرانے کی تگ و دو میں رہتے تھے تاہم ہندو انتہاء پسندوں نے مسلمانوں پر بلوئوں کا سلسلہ شروع کرکے اور انکی املاک تک کو نذر آتش کرکے انہیں ہندوئوں سے الگ ہونے اور اپنی آزاد مملکت قائم کرنے کی راہ دکھا دی جس پر بانیٔ پاکستان قائداعظم کاربند ہوئے اور مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے تحریک پاکستان کی 23مارچ 1940 ء سے شروع ہونیوالی باضابطہ جدوجہد کی قیادت کرتے ہوئے سات سال کے مختصر عرصہ میں پاکستان کی شکل میں برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ اور آزاد و خودمختار مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ مملکت بلاشبہ دو قومی نظریے پر ہی قائم ہوئی اور یہی نظریہ قیام پاکستان کے بعد نظریۂ پاکستان بنا جس پر آج بھی پوری قوم اور اسکی قیادتیں کاربند ہیں۔
آج بھارت میں ہندوتوا کے راستے پر چلنے والی بی جے پی کی مودی سرکار نے جس جنونیت کے ساتھ مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ وہ مودی سرکار کی ہندو بنیئے والی وہی سوچ ہے جو 14‘ اگست 1947ء کو تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کا باعث بنی تھی۔ اس تناظر میں مودی سرکار بھارت کے مزید ٹکڑے کرنے کی راہ ہموار کرتی نظر آرہی ہے چنانچہ دنیا میں آج نریندر مودی کو سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بننے والے اسکے آخری صدر گورباچوف سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اگر مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی دوسری ریاستوں میں مسلمانوں کو دبانے اور ہندو انتہاء پسندوں کے بلوئوں کی شکل میں انکے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھا اور اسی طرح اس نے ہندوستان میں آباد دوسری اقلیتوں کا امن و سکون بھی چھیننے کی کوشش کی جو آر ایس ایس اور دوسری ہندو انتہاء پسند تنظیموں کا ایجنڈا ہے تو وہ دن دور نہیں جب مودی کے ہاتھوں موجودہ بھارت بھی سوویت یونین کی طرح ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائیگا اور اس کا مہابھارت کا خواب چکناچور ہو جائیگا۔
وزیراعظم عمران خان نے اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی بلکہ اس سے نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں جبکہ آج دو ایٹمی طاقتوں پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ کی دنیا بھی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ ایٹمی جنگ تو پلک جھپکتے میں پاکستان اور بھارت ہی نہیں‘ پورے کرۂ ارض کی تباہی کی نوبت لے آئیگی۔ جنونی مودی سرکار کو یقیناً اس سنگین صورتحال کا ادراک نہیں اس لئے وہ پاکستان کے ساتھ دشمنی بڑھا کر اور مقبوضہ کشمیر کو اپنے پانچ اگست والے اقدام کے ذریعے ہڑپ کرنے کے بعد کشمیری عوام کو زندہ درگور کرنے کا راستہ اختیار کرکے دنیا کی تباہی کی نوبت لانے والی جنگ کی راہ ہی ہموار کررہی ہے۔ اگر مودی سرکار کی جنونیت اسی طرح برقرار رہی اور اس نے کنٹرول لائن پر پاکستان کی چیک پوسٹوں اور سول آبادیوں پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری اور اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام کو کرفیو کے ذریعے محصور کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو پاکستان کے پاس اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا ہی آخری آپشن بچے گا۔ اسکے بعد مودی سرکار توکجا‘ اس خطے میں شاید ہی کوئی ذی روح بچ پائے گا۔
اس تناظر میں یہ صورتحال عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کیلئے غوروفکر کی متقاضی ہے جس کیلئے پاکستان دنیا کو بھارتی مکروہ چہرہ دکھانے اور اسکے اقلیتوں پر جاری مظالم سے ہر لمحہ آگاہ رکھنے کیلئے سفارتی سطح پر متحرک کردار ادا کررہا ہے جس پر بلاشبہ عالمی قیادتیں بھی قائل ہو چکی ہیں۔ چنانچہ آج بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عالمی دبائو بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ روز یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی نے بھی اسی بنیاد پر کشمیر کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیا اور بھارتی جنونی کردار پر سخت تنقید کی۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے تو برسلز پہنچ کر یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کا اجلاس رکوانے کی چار گھنٹے تک بھرپور کوشش کی مگر انہیں اپنے اس مشن میں ناکام ہو کر واپس لوٹنا پڑا جبکہ خارجہ امور کمیٹی میں یورپی ارکان پارلیمنٹ نے مودی انتظامیہ سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے اجلاس میں پہلی بار مسئلہ کشمیر پر بات کی گئی جو بلاشبہ پاکستان کی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ اس اجلاس میں مودی سرکار کے رویے کو بھی قابل مذمت قرار دیا گیا اور اسے پاکستان کے ساتھ فوری مذاکرات کرنے کا کہا گیا۔ اسی طرح اجلاس میں یورپی ارکان پارلیمنٹ نے یورپی یونین اور پارلیمنٹ سے بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر فوری ردعمل دینے کا تقاضا کیا۔ اس اجلاس میں یورپی پارلیمنٹ کی انسانی حقوق کمیٹی اور شہری آزادی و انصاف کمیٹی کے ارکان بھی شریک تھے۔ انسانی حقوق کمیٹی کی چیئرپرسن ماریہ ایرینہ نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے خراب تر قرار دیا اور مودی سرکار سے دفعات 370 اور 35اے کو دوبارہ بھارتی آئین کا حصہ بنانے کا تقاضا کیا۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اسی بنیاد پر مودی سرکار کو باور کرایا ہے کہ اسے اپنی ہٹ دھرمی کے باعث ہر میدان میں شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مودی سرکار کے اس رویے کی بنیاد پر ہی گزشتہ روز برطانوی لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ٹام واٹسن نے بھی سٹی کونسل کے باہر ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی سخت الفاظ میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور بدترین تشدد کی جانب توجہ دلائی اور کہا کہ انہوں نے یہاں کشمیریوں کے چہروں پر 20 سال میں اتنی پریشانی نہیں دیکھی جتنی گزشتہ 25 روز میں دیکھی ہے۔ بھارت کو یہاں بھی ذلت آمیز شکست ہوئی اور بھارتی ہائی کمیشن برطانوی رکن پارلیمنٹ کے اس بیان پر آپے سے باہر ہو گیا۔ مودی سرکار کو دنیا میں ہرجگہ پر ایسی ہی ذلت کا سامنا کرنا پڑیگا جس سے بچنے کا اسکے پاس واحد راستہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو یواین قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کا ہے۔ پاکستان نے تو مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے ہیں مگر بھارتی نیت میں ہی فتور ہے جسے جنونیت سے روکنا اقوام عالم کی ذمہ داری ہے۔ اگر اس ذمہ داری سے اجتناب کیا جائیگا تو مودی سرکار کے ہاتھوں دنیا کی تباہی بعید ازقیاس نہیں۔