اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے بڑے صنعت کاروں کو گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سرچارج معاف کرنے کے بارے میں عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں اور کہا ہے کہ قومی خزانے کی حفاظت کی ذمہ داری ہے، کسی کو نوازا نہیں جائے گا۔ وفاقی کابینہ نے اسلامی کیلنڈر کا معاملہ وزارت مذہبی امور کو بھجوا دیا ہے، وزارت مذہبی امور سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد کابینہ کو رپورٹ پیش کرے گی۔ وفاقی کابینہ نے تعلیمی اداروں کے ملازمین کی مستقلی پر کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔کمیٹی دیگر اداروں میں ڈیلی ویجز ملازمین کے مستقبل کے بارے میں بھی جلد فیصلہ کرے گی۔ وفاقی کابینہ نے کمیٹی برائے سی پیک کے فیصلوں کی بھی توثیق کر دی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بڑے صنعت کاروں کو ٹیکس معاف کرنے کا معاملہ زیر غور آیا۔ وزیراعظم نے جی آئی ڈی سی کی مد میں ٹیکس معاف کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے عمر ایوب اور ندیم بابرسے تفصیلات طلب کیں۔ وزیراعظم نے اس ضمن میں میڈیا پر آنے والی خبروں پر ان سے وضاحت مانگ لی اور کہا کہ ٹیکس معافی سے متعلق ابہام کو دورکیا جائے، عوام کو واضح اندازمیں بتایا جائے کہ ٹیکس کیوں معاف کیا گیا۔ وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں 7 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھارت کے لئے فضائی حدود کے استعمال کا معاملہ زیر بحث آیا تاہم اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ وفاقی کابینہ کے ارکان نے بھی کمپنیز کو 208 ارب روپے معاف کرنے پر عمر ایوب اور ندیم بابر سے سوالات کئے گئے۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر توانائی عمر ایوب خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے بتایا کہ گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں کسی کو بھی خلاف ضابطہ مراعات فراہم نہیں کی گئی ہیں، اس حوالے سے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ جی آئی ڈی سی کے حوالے سے تمام معاملات شفاف طریقے سے کئے گئے ہیں، آرڈیننس سے وہ فرٹیلائزر کمپنیاں فائدہ اٹھا سکتی ہیں جو فرانزک آڈٹ کی شرط کو لاگو کرنے پر آمادہ ہوں گی، وزیراعظم کی ہدایت پر فرانزک آڈٹ کی شرط کو آرڈیننس کا حصہ بنانے کے لئے ترمیمی آرڈیننس سامنے لایا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں حکومت عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنا چاہتی ہے، آرڈیننس کے اجراء کا مقصد صنعتی شعبے میں گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کم کرنے اور دوسرے کاروباری شعبوں کے برابر لانے، تمام کاروباری طبقوں کو یکساں کاروبار کرنے کے مواقع فراہم کرنا اور گیس کے شعبے میں موجودہ تقریباً 15ارب جی آئی ڈی سی کی مد میں سالانہ وصولیوں کو 42 ارب سالانہ کی سطح پر لانا ہے، جو وصولیاں ہو چکی ہیں ان میں کوئی چھوٹ نہیں دی جا رہی، عوام سے وصول کئے جانے والے جی آئی ڈی سی کا صحیح تخمینہ لگانے کیلئے فرانزک آڈٹ کرایا جائے گا، وہی کھاد فیکٹریاں جی آئی ڈی سی کا کم ریٹ لے سکیں گی جن کا آڈٹ ہو چکا ہو گا، اضافی وصول ہونے والا جی آئی ڈی سی کسانوں کو واپس کیا جائے، جی آئی ڈی سی سے متعلق مقدمات اور تنازعات کے حل سے حکومت کو 210 ارب روپے ملیں گے، اس کے علاوہ صنعتی شعبہ میں سرمایہ کاری کیلئے فضا سازگار ہو گی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ کابینہ کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم نے اس امر پر گہرے افسوس اور تشویش کا اظہار کیا کہ بعض عناصر کی جانب سے غلط اور بے بنیاد خبروں کو بنیاد بنا کر عوام کو حکومت کے بارے میں گمراہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے گمراہ کن پراپیگنڈے سے عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ حکومت کی ساکھ متاثر ہو۔ وزیراعظم نے جی آئی ڈی سی کے حوالے سے پھیلائی جانے والی خبروں پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں کرپشن کے ریکارڈ توڑنے والے افراد کی جانب سے غلط معلومات کی بنیاد پر عوام الناس کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے معاشی ٹیم کو ہدایت کی کہ معیشت کے حوالے اور خصوصاً جی آئی ڈی سی کے حوالے سے تمام حقائق تفصیلات کے ساتھ قوم کے سامنے رکھے جائیں اور معاشی میدان میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔ معاون خصوصی ندیم بابر نے کابینہ کو جی آئی ڈی سی سے متعلق تمام حقائق سے تفصیلاً آگاہ کیا۔ وفاقی وزیر عمر ایوب نے کہا کہ گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کوئی نہیں چیز نہیں ہے، 2011ء میں یہ لاگو کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں بھی اس حوالے سے آرڈیننس جاری ہوا۔ انہوں نے کہا کہ گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں کل رقم کی مالیت 417 سے 420 ارب روپے ہے، ان میں 147 ارب روپے شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ عوام پر قیمتوں کا بوجھ کم ہو، آرڈیننس کا مقصد بھی یہی ہے۔ آرڈیننس شفاف طریقے سے سامنے لایا گیا ہے، اس پر اسد عمر نے کام شروع کیا تھا جب ہم نے ذمہ داریاں سنبھالیں تو یہ سلسلہ ہم نے آگے بڑھایا، ہم نے کسی کو ’’مفت کا کھانا‘‘ نہیں کھلایا ہے، تمام امور شفاف طریقے سے آگے بڑھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرڈیننس سے حکومت کو فائدہ پہنچے گا، پہلے جی آئی ڈی سی کی مد میں 15 ارب روپے جمع ہوتے تھے، اس آرڈیننس کے بعد جی آئی ڈی سی کی مد میں وصولیوں کی شرح 42 ارب روپے ہو گئی جسے بعد میں 47 ارب روپے کی سطح پر لایا جائے گا، کسی کو چھوٹ نہیں دی گئی ہے، اس حوالے سے افواہیں اور غلط بیانی کی جا رہی ہے، سازشیں اور الزامات بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہیں۔وفاقی کابینہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات، 30 دنوں سے جاری کرفیو اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان یک زبان ہو کر عالمی فورمزکا ہر دروازہ کھٹکھٹائے گا ، ہر جمعہ کوکشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا سلسلہ جاری رہے گا ،کامیاب سفارتکاری کی بدولت یورپین پارلیمنٹ اور او آئی سی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر بارے موثر آواز بلند ہوئی ہے، وزیراعظم عمران خان کی تگ و دو سے ناصرف مودی سرکار کا بیانیہ اور موقف مسترد ہوا بلکہ حق، سچ، اصول پر مبنی موقف کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی ہے ،وزیرِاعظم عمران خان نے ہدایت کی کہ گھروں پر کام کرنے والے ملازمین اور بھٹہ خشت پر کام کرنے والے ملازمین کی بہتری، ان کے حقوق کے تحفظ اور انکو اور ان کے خاندانوں کو صحت تعلیم وغیرہ کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائیں، جماعت اول سے جماعت پانچ تک کا یکساں نصاب مارچ 2020 تک تیار کر لیا جائے گا، مدارس اصلاحات تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار ہوئی ہیں جن پر سب کا اتفاق ہے، اصلاحات کی رو سے یہ فیصلہ ہوا ہے کہ تمام دینی مدارس کو وزارتِ تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت رجسٹر کر ے گی، رجسٹریشن نہ کرانے والے مدارس کو بند کر دیا جائے گا، مدارس کے طالبعلم آٹھویں، دسویں اور بارویں کے امتحانات بورڈ کے تحت دیں گے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیرِاعظم عمران خان نے کراچی میں ہسپتالوں کے فضلہ جات کو صحیح طریقے سے ٹھکانے نہ لگانے اور اسکے نتیجے میں ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی کہ تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز فضلہ جات کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے حوالے سے قوانین پر موثر عمل درآمد کرائیں اور جہاں ضروری سمجھا جائے ان قوانین کو مزید موثر بنایا جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت مثبت تنقید کو خوش آمدید کہتی ہے لیکن تنقید کی آڑ میں نجی زندگیوں اور اہل و عیال کے افراد کی کردار کشی اور بلیک میل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اجلاس کے دوران معاون خصوصی برائے اطلاعات نے بتایا کہ غلط خبروں کے تدارک کے لئے پاک نیوز کے عنوان سے ایک موبائل اپلیکیشن لانچ کر دی گئی ہے تاکہ غلط خبروں کی فوری تصحیح کی جا سکے۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ اسلام آباد کے دو بڑے ہسپتالوں کی ہفتہ وار بنیادوں پر رپورٹ پیش کی جائے۔ فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ ملک بھر میں تقریباً چھ سو کے قریب پریس کلبوں میں انفارمیشن اینڈ لرننگ سنٹرز بنائے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے وزیرِ برائے تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت شفقت محمود کو ہدایت کی کہ گذشتہ ایک سال میں تمام گورنر ہائوسز کے اخراجات کی رپورٹ پیش کی جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے کابینہ اجلاس میں کراچی میں ایمرجنسی لگانے کے مطالبے پر کوئی جواب نہیں دیا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے بتایا کہ میں نے کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم سے بھی کراچی میں ایمرجنسی لگانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ میری وہی پوزیشن ہے جو میئر کراچی کی ہے۔ ایمرجنسی کے بغیر آپ نہیں کر سکتے۔ میرے مطالبے پر وزیراعظم نے روایتی انداز میں مجھے غور سے دیکھا اور کوئی جواب نہیں دیا اور نوٹ کر لیا۔ میں میڈیا پر بھی ایمرجنسی کا مطالبہ کرتا رہا ہوں۔ حکومت کا حصہ ہوں یہی بات کابینہ کے اجلاس میں کی ہے۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیراعظم عمران خان سے معروف صنعت کاروں اور کاروباری شخصیات نے ملاقات کی۔ جس میں میاں محمد منشائ، بشیر علی محمد، علی حبیب، شاہد حسین، خلیل ستار، ثاقب شیرازی، شاہد عبداللہ، طارق سہگل، عارف حبیب، مصدق ذوالقرنین اور سکندر مصطفیٰ شامل تھے۔ وزیر منصوبہ بندی مخدوم خسرو بختیار، وزیر بحری امور سید علی حیدر زیدی، مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین اور چیئرمین ایف بی آر سید شبر زیدی بھی موجود تھے، وزیراعظم عمران خان نے صنعت کاروں اور کاروباری شخصیات کودعوت دی کہ وہ معیشت کی بہتری کے سلسلے میں اپنی تجاویز پیش کریں۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ حکومت بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ کاروبار ی سرگرمیوں کے لئے ہر ممکن سہولیات فراہم کی جائیں، جب تک کاروبار میں آسانیاں پیدا نہیں ہونگی اْس وقت تک معیشت کا پہیہ نہیں چل سکتا۔ ہماری اولین ترجیح روزگار کے مواقع پید ا کرنا ہے جس سے غربت میں کمی آئے گی، کاروباری برادری کی جانب سے پیش کی جانے والی تجاویز کی روشنی میں پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کا عمل موثر طور پر آگے بڑھایا جائے گا۔ حکومت معیشت کے تمام شعبوں میں مشاورتی عمل اور کاروباری طبقے سے ملاقاتوں کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رکھا جائے گا۔ کاروباری شخصیات نے حکومت کی معاشی پالیسیوں پر بھرپور اعتماد کا اظہا رکیا اور معیشت کی بہتری کے لئے حکومت کی معاشی ٹیم کی کاوشوں کو سراہا۔ ملاقات کے دوران معیشت کی بہتری کے لیے مختلف تجاویز پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ان میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے اقدامات، نجکاری، محصولات میں اضافہ، ادارہ جاتی اصلاحات، ٹیکس نیٹ میں توسیع ، سالانہ بجٹ کی تیاری، ہنر مندی اور استعداد کار اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے حوالے سے مختلف تجاویز زیر غور آئیں۔ وزیراعظم نے متعلقہ وزرائور مشیروں کو ہدایت کی کہ وہ ان تمام تجاویز کا بغور جائزہ لیں اور کاروباری طبقے سے مشاورت جاری رکھیں۔