اسلام آباد (خصوصی نمائندہ+ نوائے وقت رپورٹ) سینٹ میں اپوزیشن نے صدارتی آرڈیننسز کے اجرا پر احتجاج کیا اور ایوان سے واک آئوٹ کیا۔ کورم کی کمی کے باعث چئیرمین کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ پی پی کے ارکان رضا ربانی، شیری رحمان، ن لیگ کے راجہ ظفرالحق، جماعت اسلامی کے سراج الحق اور دیگر نے کہا کہ قوانین پارلیمان میں لائے جائیں۔ رضا ربانی نے کہا کہ صدر نے سینیٹ اجلاس سے ایک دن پہلے پیاروں اور سرمایہ کاروں کو خوش کرنے کا آرڈیننس جاری کیا۔ دیگر آرڈیننسوں کے ساتھ سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچانے کا آرڈیننس کیوں سینٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو خطرہ ہے کہ سینٹ یہ آرڈیننس مسترد کر دے گی۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ حکومت ہاوس کو آرڈیننس فیکٹری کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔یہ آئین کے ساتھ فراڈ ہے ہم اس کیخلاف احتجاج کرتے ہیں ۔سینیٹر سراج الحق اور دیگر اراکین نے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے جو آئین کے خلاف کوئی اقدام اٹھایا جائے۔ شبلی فراز نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو قانون سازی کے معاملہ پر حکومت سے تعاون کرنا چاہئے اور مفاد عامہ کے بلوں کی مخالفت کی بجائے ان کی منظوری میں تعاون کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان میں اپوزیشن نے ہمیشہ عوامی مفاد کے بلوں کی مخالفت کی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافے کے بل کو اپوزیشن نے مسترد کیا، یہ عوامی مفاد کا بل تھا، قائمہ کمیٹی نے بل کو منظور کیا تھا، حکومت آرڈیننس نہیں لانا چاہتی لیکن قانون سازی کے معاملہ پر اپوزیشن کا رویہ غیر سنجیدہ ہے۔ اپوزیشن نے ایوان سے واک آوٹ کیا تو وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے کہا کہ میں بھی چیخ چیخ پر ایوان میں بول سکتا ہوں،آپوزیشن میں سچائی کی بات سننے کی ان کی ہمت نہیں،واک آٹ کے بعد کورم کی نشاندہی کی گئی۔چئیر مین نے محسن عزیز اور بابر کہدہ کو اپوزیشن کو منانے کے لیے بھیجا لیکن اپوزیشن کے ارکان واپس نہیں آئے جس سے ایوان میں کورم کی کمی واقع ہو گئی اور چئیرمین نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتو ی کر دیا-اس سے قبل اعظم سواتی نے نیا پاکستان ہاوسنگ اینڈ ڈولپمنٹ اتھارٹی آرڈننس2019اور وفاقی ملازمین ہاوسنگ اتھارٹی 2019 ،نیکٹا آرڈنینس اور تعزیرات پاکستان آرڈننس2019 ایوان بالا میں پیش کیا گیا تو اپوزیشن کی جانب سے شیم،شیم،شیم کے نعرے لگائے چئیرمین نے آرڈننسز کو متعلقہ کمیٹیوں کے سپرد کردیا۔ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران بتایا گیا کہ ملک میں پانی کی کوئی کمی نہیں ہے پانی ذخیرہ کرنے کیلئے نئے بنانے کی ضرورت ہے۔ رویت ہلال کمیٹی کے لئے مختص بجٹ کی مالیت 34 لاکھ 71 ہزار 300 روپے تھی جس میں اب تک خرچ کی گئی رقم کی مالیت 31 لاکھ 45 ہزار 855 روپے ہے۔ خیبر پی کے کو 2018-19ء کی پہلی ششماہی میں بجلی کے خالص منافع کی مد میں 3 ارب روپے سے زائد ادا کئے گئے۔ باقی رقم بھی جلد ادا کی جائے گی۔حج کے دوران ناقص انتظامات کے ذمہ دار ٹوور آپریٹرز کے خلاف کارروائی ہوگی۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ پانی کی فراہمی میں کسی کے ساتھ جان بوجھ کر زیادتی نہیں کی جاتی، ارسا پانی کی تقسیم کا ذمہ دار ادارہ ہے جس میں تمام صوبوں کی نمائندگی موجود ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ پورے ملک میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ اگر وقت پر سابق حکومتوں نے فیصلے کئے ہوتے اور آج ڈیم بنے ہوتے تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔ وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی نے کہا ہے سرمایہ کاری میں اضافہ سیاسی اور اقتصادی استحکام سے مشروط ہے۔ مالی سال 2018-19ء کے پہلے دس ماہ کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 50.7 فیصد کی کمی ہوئی ہے تاہم گزشتہ دور حکومت کے پہلے دس ماہ کی نسبت براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وزیر مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی نور الحق قادری نے کہا ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ارکان کے قیام کے وقت اس کے 9 ارکان تھے، ہم بھی ان کی تعداد 9 تک لائیں گے۔ ارکان کمیٹی کو گریڈ 20 کے افسر کے برابر مراعات حاصل ہیں۔ کمیٹی کے سالانہ چار اجلاس ہوتے ہیں جس میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے ممتاز علماء کرام کی نمائندگی ہے۔سینٹیر شبلی فراز نے کہا ہے کہ بجلی کا خالص منافع جس صوبے کا بھی بنتا ہے اسے بروقت ملنا چاہئے۔ فارمولے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سینٹ میں وزیراعلیٰ خیبر پی کے محمود خان کی والدہ کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی ۔