ایف آئی آر کا جلد درج ہونا مشکوک، کیا جھوٹی گواہیوں پر سب کو پھانسی لٹکا دیں: چیف جسٹس

اسلام آباد (اے پی پی) سپریم کورٹ نے پاک پتن میں دیرینہ عداوت پر نور احمد نامی نوجوان کو قتل کرنے سے متعلق کیس میں ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمان کوبری کردیا اور واضح کیاکہ استغاثہ اس معاملے میں اپناکیس ثابت کرنے میں ناکام رہا، سوال یہ ہے کہ ایف آئی آر واقعہ کے دس منٹ بعد کیسے درج ہو گئی، ایف آئی آر میں اتنی تیزی دکھانے سے شکوک و شبہات پیدا ہو جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ 2006ء میں دیرینہ عداوت پر نور احمد نامی کو قتل کیا گیا تھا جس کا الزام محمد حنیف عرف کالے اور محمد اکرم پر لگایا گیا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے محمد حنیف کو سزائے موت جبکہ محمد اکرم کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس واقعہ میں ایف آئی آر قتل کے دس منٹ بعد درج ہو گئی جو حیرت کی بات ہے۔ ایک فیصلہ میںجسٹس محمد منیر نے کہا تھا کہ پنجاب میں ایف آئی آر کاجلدی درج ہونا مشکوک بات ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سائیکل سے دو کلومیٹر کا سفر دس منٹ میں کیسے طے ہو سکتا ہے۔ اگر سارے اتنے سچے تھے تو لاش سامنے پڑی تھی اس کے بارے میںکسی کو معلوم تک نہیں ہوسکا کہ یہ قتل کب ہوا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ گواہ جھوٹی گواہی دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں لیکن کیا جھوٹی گواہیوں پرسب کوپھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ سپریم کورٹ نے لاہورمیںگھریلو تنازعہ پرایک شخص کو قتل کرنے سے متعلق کیس میں سزایافتہ ملزم کی بریت سزامیں اضافہ کیلئے دائر درخواستیں مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیکل رپورٹ میں ملزم کا دماغی توازن درست نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں، ایک آدمی قتل اور بچہ وخاتون زخمی ہوگئے پھربھی ایف آئی تاخیر سے درج کرائی گئی ، ایسے مقدمات میںسچ نہ بولنے کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے۔ سچ نہیں بولا جائے گا تو پھر حالات خراب ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن