برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت کا سہرا بزرگان دین کی محنت کا مرہون محنت ہے ان میں ایک بڑا نام ہمارے جد امجد مولانا حضرت مولانا حافظ الدینؒ کا بھی ہے۔ آپ کے والد گرامی مولانا امام الدینؒ اپنے وقت کے جید عالم تھے تصوف میں آپ باکمال ہستی تھے۔ دنیا اور دین کی تعلیم کے حاصل کرنے کے بعد آپ ریاست جھجر میں چیف جسٹس مقرر ہوئے آپ نے وہاں کے نواب کو پہلے سے ہی کہہ دیا تھا کہ اسلام کے قانون ریاست میں رائج ہوں گے لیکن ریاست میں ہندوؤں کی آبادی بھی بہت بڑی تھی وہاں کا نواب اس معاہدے کی پاسداری نہ کر سکا لٰہذا آپ نے اپنی طبعیت کے مطابق اس ریاست کو چھوڑ کر ریاست دوجانہ میں رہائش رکھ لی جس محل میں آپ کو ٹھہرایا گیا اس میں جنات رہتے تھے پہلے ہی دن جنات نے آپ کے خادم کو رسیوں میں جکڑ دیا آپ کیونکہ جنات پر دسترس رکھتے تھے آپ نے جنات کے بادشاہ سمیت سب کو حاضر کر لیا اور حکم دیا کہ ہمارے خادم کے ساتھ جو جنات کشتی لڑتے رہے ان کو سامنے حاضر کیا جائے جنات کے بادشاہ نے آپ سے وعدہ کیا کہ ان جنات کو معاف کر دیا جائے لٰہذا آپ نے اس شرط کے ساتھ معاف کیا کہ اس محل کو فوری طورپر چھوڑ جائیں اور مولانا امام الدین کی سات پشتوں تک یہ جنات انکے مریدین کو کچھ نہیں کہیں گے لٰہا اب تک یہ حال ہے کہ اگر کسی شخص پر جنات (مسلمان) کا سایہ آ جائے تو ہو ہماری ارادت مندی میں آ کر ان سے چھٹکارا حاصل کر جاتا ہے ان کے بڑے صاحبزادے مولانا حافظ الدینؒ نے 9سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا تھا۔ آپ نے اپنے وقت کے مشہور عالم مولانا امام بخش سے علم حاصل کیا آپ نے ان سے دہلی میں عربی علم و ادب صرف و نحو ‘ لغت و عروض‘ فقہ تفسیر‘ حدیث‘ سب ہندسہ انصاب اور فن مناظرہ پر دسترس حاصل کی اس کے بعد آپ مکہ معظمہ تشریف لے گئے وہاں پر مولانا سید حسین مکی کے شاگرد بنے فارغ ہونے کے بعد آپ نے نجد‘ بحرین‘ مسقط میں تبلیغ کے سلسلے میں قیام کیا اور اس کے بعد دوجانہ تشریف لے آئے اور وہاں پر رشد و ہدایت اور تعلیم کا سلسلہ جاری کیا آپ کے لاتعداد طلباء میں پیر جماعت علی شاہ صاحب جیسی ہستی بھی شامل ہیں آپ کی تعلیم سے متاثر ہو کر لاکھوں ہندوؤں نے آپ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔ آپ نے دوجانہ میں ایک بہت بڑی مسجد جو کہ اس وقت اس علاقے کی سب سے خوبصوت مسجد تھی بنائی‘ خوبصورتی کا یہ عالم تھا کہ لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آیا کرتے تھے۔ آپ کے مریدوں کی ایک بڑی تعداد روہتک میں بھی رہائش پذیر تھی ان کے پہم اصرار پر آپ نے 1300ھ میں مدرسہ خیرالمعاد کی بنیاد رکھی اور اپنے چھوٹے صاحبزادے سید حسین مشیر کو وہاں کا مہتمم بنایا۔ ماشاء اﷲ آج 1442ھ تک یہ مدرسہ قلعہ پر قائم ہے اور دین اسلام کی خدمت کر رہا ہے۔ ہریانہ کے اکثر راجپوت پٹھان بیوپاری شیخ مسلم جاٹ آپ کے ارادت مند ہیں۔ آپ کے بڑے صاحبزادے قاری سید حسن شبرؒ اپنے وقت کے بہت بڑے عالم قاری اور نعت خواں تھے ان کی قرأت کا یہ عالم تھا کہ مسلمان تو مسلمان ہندوؤں جب قرآن مجید کی تلاوت ان سے سنتے تو رک جایا کرتے تھے آپ نے بھی رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا لیکن آپ کی عمر صرف 42 سال تھی جب آپ اس دنیا سے پردہ فرما گئے ان کے بعد ان کے صاحبزادے سید فیض الحسن نے اپنے بزرگوں کا تبلیغی کام جاری رکھا آپ کی چند خصوصیات قابل ذکر ہیں۔ آپ نے اپنے سسر حکیم حاذق شکور الدین سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ دوجانہ شریف میں آپ کا ایک بہت بڑا یونانی دوا خانہ تھا۔ ریاست کے سب امیر و غریب اس سے مفت دوائی لیا کرتے تھے آپ کی آواز بہت پیاری تھی اس سے متاثر ہو کر لاتعداد ہندوؤں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ جب پاکستان بنا تو یہ نومسلم دوبارہ سے ہندو ہونے لگے آپ نے ان کو مسلمان بنانے کے خاطر اپنی ہجرت موقوف کر دی آج بھی ان کی اولادیں پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور ایسے پیر و مرشد کے احسان مند ہیں کہ انہیں کلمہ توحید جیسی نعمت سے سرفراز کیا۔ ان کے صاحبزادے میرے والد محترم قاری سید وضاحت حسن نے مدسرہ عالیہ حاذطینہ دوجانہ سے قرآن مجید حفظ کیا دینی تعلیم مولانا حامد علی خان نے حاصل کی۔ شروع شروع میں مدرسہ خیرالمعاد میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دئیے۔ آپ بھی حکیم حاذق اور بہترین قاری تھے آپ کی وفات کے بعد آپ کے سجادہ نشیں پروفیسر حافظ صباحت حسن نے اپنے بزرگوں کے کام کو نہایت تندہی سے جاری رکھا آپ نے اپنی زندگی میں ہی فدوی کو سجادہ نشینی کی دستار عطا فرمائی ان عظیم ہستیوں کا عرس ہر سال خانقاہ سید وضاحت حسن رضا آباد پر زیر سرپرستی سید مبشر حسن اور زیر صدارت راقم کا نہایت عقیدت و احترام سے منعقد ہوتا ہے پاکستان کے دور دراز سے مریدین متوسلین اس میں شرکت کے لئے آتے ہیں اس سال 4 ستمبر کو کرونا کی وجہ سے مختصر وقت کے لئے منعقد کیا جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اور ہماری اولاد کو ان بزرگوں کے اسوہ حسنہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور دین اسلام کی خدمت تاحد زندگی جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین