اپوزیشن اے پی سی 20 ستمبر کو ہو گی، عوام کو سڑکوں پر لانے کا فیصلہ

اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگارخصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کے اجلاس میں ملک میں مہنگائی،  بے روزگاری اور حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایجی ٹیشن کے ذریعے حکومت پر مستعفی ہونے کے لئے دبائو بڑھایا جائے گا۔ رہبر کمیٹی میں تمام جماعتوں نے ’’ان ہائوس تبدیلی ‘‘ کے آپشن پر اتفاق رائے کیا۔ تاہم اولیں ترجیح از سر نو غیر جانبدارانہ و منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ عام انتخابات کے انعقاد کے لئے عوام کا دبائو بڑھانے کے لئے ملک بھر میں ریلیاں نکالی جائیں گی۔ سب سے پہلے پنجاب کے شہروں میں مشترکہ ریلیاں نکالی جائیں گی۔ اپوزیشن جماعتوں سے آل پارٹیز کانفرنس کانفرنس کے اعلامیہ کے خد و خال تیار کرنے کے لئے تحریری آرا طلب کر لی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت کی طرز پر ’’میثاق پاکستان ‘‘ پر دستخط کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ اجلاس میں تمام جماعتوں کے درمیان تمام غلط فہمیاں دور ہو گئیں۔ آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے لئے کراچی کی تجویز پیش کی گئی۔ اس پر تمام جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے بھی تھا لیکن بارشوں کے باعث اسلام آباد میں ہی آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے آل پارٹیز کانفرنس  کی میز بانی کرنی تھی لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) نے یہ اعزاز پاکستان پیپلز پارٹی کو دے دیا۔ رہبرکمیٹی نے 20ستمبر2020ء کو اسلام آباد میں اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ بلاول ہائوس میں ہونے والی اے پی سی میں اپوزیشن جماعتیں آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گی۔ اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کا 7ماہ بعد کنوینر اکرم درانی کی  رہائش گاہ پر اجلاس منعقد ہوا۔ رہبرکمیٹی کے چار گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اجلاس میں مسلم لیگ ن کے ایاز صادق، احسن اقبال، سابق وزیراعظم وپیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف، نیئر بخاری، شیری رحمن ، اے این پی کے میاں افتخار، قومی وطن پارٹی کے ہاشم بابر، جے یو پی کے شاہ اویس نوارنی، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سینیٹر حافظ عبدالکریم سمیت دیگر رہنمائوں نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد رہبر کمیٹی کے کنوینر اکرم درانی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کا متفق ہونا عوام کی ضروریات کی وجہ سے ہے۔ اپوزیشن میں اب کوئی اختلاف نہیں۔ اندر باہر اب ایک ہے۔ 20 ستمبر کو کل جماعتی کانفرنس بلاول ہائوس اسلام آباد میں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ر ہبر کمیٹی کا اجلاس کچھ ماہ سے نہیں ہوا۔ یہ افواہیں اٹھیں کہ اپوزیشن میں اختلافات ہیں۔ آج اپوزیشن کا اتحاد عوام کے مسائل اور حقوق دلوانے کے لیے ضروری ہے۔ ہماری خواہش تھی کہ اے پی سی کو جلد رکھا جائے۔ لیکن پارٹی قیادت کی مصروفیات کی وجہ سے جلد نہیں رکھ سکے۔ انہوں نے کہا کہ ا ے پی سی ایجنڈا میں آزاد انتخابات ہے۔ مشاورت چل رہی ہے۔ موجودہ حکومت کو مزید ایک دن بھی نہیں دیاجاسکتا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان ہائوس تبدیلی کرنی ہے یا کچھ اور یہ سب کچھ اے پی سی طے کرے گی۔ پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ پرویزاشرف نے کہا کہ جتنی بات ایف اے ٹی ایف چاہتا ہے اتنا کرنے کو تیار ہیں اور تیار تھے۔ مگر حکومت نے سب کچھ بلڈوز کیا۔ ہم کوئی ایسی قانون سازی نہیں چاہتے کہ اسے اپوزیشن کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔ یہ لغو بات ہے کہ ہم این آر او کے لئے ایف اے ٹی ایف کے قوانین کی مخالفت کررہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ بھارت نے کشمیر ہڑپ کرلیا ہے۔ ہمیں وزیر اعظم کس منہ سے طعنہ دیتے ہیں کہ اپوزیشن اور بھارت کا ایف اے ٹی ایف پر موقف ایک ہے۔ عمران خان نے کشمیر سرنڈر کردیا ہے بھارت کشمیر ہڑپ کرگیا حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی اپنے گریبان میں دیکھیں ہمیں طعنے نہ دیں۔ عمران خان صاحب جتنی تیزی اپوزیشن کے خلاف مقدمے بنانے میں ہے اتنی کشمیر پر بھی دکھاتے۔ اپنی اپوزیشن کو غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں یہ کون سی جمہوریت ہے۔ جب اکرم درانی سے پوچھا گیا کہ جن قوتوں نے مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کئے تھے جن سے مولانا شاکی ہیں۔ کیا اب گیارہ جماعتیں ان قوتوں سے وہیں سے مذاکرات کریں گی۔ تو اکرم درانی نے کہاکہ اس سوال کا جواب میرے لیول کا نہیں ہے میں جواب نہیں دے سکتا۔

ای پیپر دی نیشن