اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی، نوائے وقت رپورٹ، صباح نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت اور فوج کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے، سول اور عسکری قیادت کے درمیان بہترین تعلقات ہیں، پالیسیوں کو مسلح افواج کی حمایت حاصل ہے اور مل کر کام کر رہے ہیں، آگے بڑھنے کیلئے کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے، ہماری حکومت نے معیشت کو درست سمت پر گامزن کر دیا لیکن راتوں رات معیشت درست نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان میں ایلیٹ کا قبضہ تھا جہاں امیر امیر تر ہو رہے تھے لیکن ہم نے پالیسیاں تبدیل کیں۔ 70 سال سے کشمیر بھارت اور پاکستان میں متنازعہ ہے، مسئلہ کشمیر کا حل فوجی طاقت نہیں ہے، جب حکومت سنبھالی تو بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا، بدقسمتی سے بھارتی وزیراعظم نے امن کی پیشکش کو قبول نہیں کیا، دنیا بھارت کی مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر رہی ہے لیکن ہم اس مسئلے کو اجاگر کرتے رہیں گے۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے بہترین برادرانہ تعلقات ہیں۔ کچھ ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، پاکستان آزاد فلسطین کی حمایت کرتا ہے اور اسی موقف پر قائم ہے۔ ہمارا معاشی مستقبل چین کے ساتھ ہے، چین سے پہلے کی نسبت زیادہ بہتر تعلقات ہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کا حامی ہے، افغان مسئلہ کا فوجی طاقت حل نہیں۔ الجزیرہ ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ یہ جمہوری حکومت ہے جو الیکشن جیت کر آئی ہے، ہم جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئے اور تمام سیاسی جماعتوں کو کہا کہ الیکشن میں دھاندلی کی نشاندہی کریں۔ ہم نے حکومت سنبھالی تو متعدد معاشی چیلنجز کا سامنا تھا لیکن ہم نے معاشی اصلاحات اور کاروبار میں آسانی کے لیے اقدامات کئے، قرض پر انحصار ہو تو معیشت نہیں چلتی اور ہم نہیں چاہتے کہ ملک قرض پر چلے، ملک کو درست سمت میں گامزن کردیا ہے، راتوں رات معیشت کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیں کرونا کے ساتھ عوام کو بھوک سے بھی بچانا تھا، پاکستان نے بہترین فیصلہ کیا، ہم نے آنکھیں بند کر کے مکمل لاک ڈائون کی پالیسی پر عمل نہیں کیا۔ ہم نے کرونا سے نمٹنے کیلئے تمام ممکن اقدامات کیے۔ ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں کیونکہ آگے بڑھنے کے لیے کرپشن کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں ایلیٹ کا قبضہ تھا جہاں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا گیا۔ لیکن ہم نے پالیسیاں تبدیل کیں، ہماری تمام پالیسیوں کا محور پسماندہ طبقے کی ترقی ہے۔ عمران خان نے کہا تعلیم، معیشت، توانائی و دیگر شعبوں میں اصلاحات لا رہے ہیں۔ آئندہ سال سے ملک میں یکساں نصاب تعلیم نافذ ہوگا، پہلی بار پاکستان میں عوام کو ہیلتھ انشورنش دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 20 سال برطانیہ میں رہا ہوں اس لیے جانتا ہوں کہ آزادی اظہار رائے کا کیا مطلب ہے، پاکستان میں میڈیا پر کوئی قدغن نہیں ہے، حکومت اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتی ہے، میرے دور میں حکومت پر سب سے زیادہ تنقید ہوئی، ہماری حکومت نے خندہ پیشانی سے تنقید کا سامنا کیا، مجھے حکومت پر تنقید سے کوئی پریشانی نہیں لیکن ہماری حکومت کے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت میں فوجی قیادت سے بہترین تعلقات ہیں جو ماضی میں بہتر نہیں رہے، ہم فوج کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں اور فوج حکومت کی تمام پالیسیوں کی حمایت کرتی ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کے سوال پر جواب دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارت میں آر ایس ایس نظرئیے کی حکمرانی ہے۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے اور گزشتہ سال بھارت نے اس پر قبضہ کیا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ دنیا بھارت کی مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر رہی ہے لیکن ہم اس مسئلے کو اجاگر کرتے رہیں گے۔ عمران خان نے کہا سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے بہترین برادرانہ تعلقات ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کشمیر کے مسئلے کو اٹھائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب حکومت سنبھالی تو بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ بدقسمتی سے بھارتی وزیراعظم نے امن کی پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ بھارت میں انتہا پسندوں کی حکومت ہے۔ 70 سال سے کشمیر بھارت اور پاکستان میں متنازعہ ہے، مسئلہ کشمیر کا حل فوجی طاقت نہیں ہے۔ عمران خان نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارت میں انتہاپسندوں کی حکومت ہے، پاکستان کے خلاف بھارت کچھ کرے تو ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کچھ ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا فلسطین کے معاملے پر یکطرفہ فیصلوں سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ پاکستان آزاد فلسطین کی حمایت کرتا ہے اور اسی موقف پر قائم ہے۔ پاک چین تعلقات کے سوال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا معاشی مستقبل چین کے ساتھ ہے۔ ہر ملک اپنے مفادات کو دیکھتا ہے۔ وزیر اعظم نے واضع کیا کہ چین سے پہلے کی نسبت زیادہ بہتر تعلقات ہیں۔ مسئلہ افغانستان کے معاملے پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افغان مسئلہ کے حوالے سے میرا موقف یہی ہے کہ فوجی طاقت حل نہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کا حامی ہے۔ مذاکرات اور افہام وتفہیم سے افغان مسئلے کاحل نکالا جاسکتا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی19 سالہ جنگ میں بہت خون ریزی ہوئی۔ میں کہتا رہا افغان مسئلے کا حل مذاکرات ہیں۔ بعض عناصر افغان امن عمل کو متاثرکرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم خوابوں کی دنیا میں نہیں رہتے جہاں جادو کی چھڑی گھماتے ہی حالات تبدیل ہو جائیں گے بلکہ حقیقی زندگی میں ایسا کرنے کے لیے بہت جد و جہد درکار ہوگی۔ کرپشن کی وجہ سے معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں لیکن ان کی حکومت کے دو برسوں میں کوئی 'میگا کرپشن' سکینڈل سامنے نہیں آیا ہے کیوں کہ ’حکومت کی اوپر کی سطح پر اسے قابو کر لیا گیا ہے۔‘'ماضی میں جو طاقت میں آئے انہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا لیکن ان کا احتساب نہیں ہوا۔ اب ہماری تاریخ میں پہلی بار طاقتور کا احتساب ہو رہا ہے۔' پروگرام 'ٹاک ٹو الجزیرہ' میں میزبان ہاشم اہلبرا سے تقریباً 20 منٹ کی گفتگو میں عمران خان نے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ آزادی اظہار رائے سلب کرنے کے الزامات کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انہیں شواہد دکھائے جائیں کہ پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر کیسے پابندی لگائی جا رہی ہے اور بتایا جائے کہ گزشتہ دو برسوں میں پاکستان میں کتنے صحافیوں کو اغواء کیا گیا۔ بس شاید ایک واقعہ ہوا تھا کسی صحافی نے دعویٰ کیا تھا۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اسے اٹھانے کی وجوہات کیا تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس قسم کا مواد ان کی حکومت کے خلاف میڈیا پر چلا ہے، اگر یہ برطانیہ ہوتا تو ان کی حکومت اور وزرا کو لاکھوں ڈالر ہرجانے کی صورت میں مل چکے ہوتے۔ 'بدقسمتی سے ہماری حکومت، ہمارے وزرا خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ اگر کوئی جعلی خبریں چلائے وزیر اعظم کے خلاف اور وزیر اعظم انہیں عدالت لے جائے، تو کیا یہ ڈرانا دھمکانا شمار ہوگا؟۔۔ اب ہمیں تحفظ کی ضرورت ہے۔' بھارت کا مسئلہ ہو یا افغانستان میں امن کا، فوج ہر قدم پر ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ چین اور امریکہ سے تعلقات کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی ایک ملک کے کیمپ میں جائے اور اس وقت پاکستان کے دونوں ملکوں کے ساتھ’ بہت عمدہ‘ تعلقات ہیں۔'ایسا کیوں ہو کہ ہم صرف ایک ملک کے ساتھ ہوں یا دوسرے ملک کے۔ ہر ملک اپنے مفادات کی فکر کرتا ہے۔ ہماری عوام کے لیے کیا بہتر ہے؟ ہم ہر کسی کے ساتھ اچھے تعلقات کیوں نہیں قائم کر سکتے؟۔ مجھے نہیں سمجھ آتی کہ چین یا امریکہ میں سے ایک کیوں ہو؟' مزید برآں وزیراعظم عمران خان سے حکومتی اور اتحادی سینیٹرز نے ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق ایف اے ٹی ایف سمیت اہم قانون سازی پر مشاورت کی گئی۔ سینٹ سے قوانین کی منظوری سے متعلق لائحہ عمل طے کیا گیا۔ وزیراعظم نے سینیٹرز کو ایف اے ٹی ایف سے متعلق ہدایات دیں۔ وزیراعظم سے سینیٹرز نے مسائل اور دیگر سیاسی امور پر بات کی۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت نیشنل کوارڈینیشن کمیٹی برائے ہاؤسنگ، کنسٹرکشن اور ڈویلپمنٹ کا ہفتہ وار اجلاس ہوا۔ وزیرِ اطلاعات سینیٹر شبلی فراز، معاونین خصوصی ملک امین اسلم، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ، سید ذوالفقار عباس بخاری، ڈاکٹر شہباز گل، چئیرمین نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی لیفٹنٹ جنرل (ر) انور علی حیدر، گورنر سٹیٹ بنک، چئیرمین ایف بی آر، متعلقہ محکموں کے سیکرٹری صاحبان اور سینئر افسران شریک ہوئے جبکہ تمام چیف سیکرٹری صاحبان اور آباد کے نمائندگان نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔ صوبہ سندھ میں جاری تعمیراتی سرگرمیوں کے بارے میں اجلاس کو بتایا گیا کہ 19 تعمیراتی منصوبوں کی منظوری دی جا چکی ہے جس کے نتیجے میں 38لاکھ مربع فٹ رقبے پر تعمیرات ہوں گی۔ ان تعمیرات کی لاگت 13.8ارب روپے ہے اور اس کے نتیجے میں تیس ارب کی معاشی سرگرمی پیدا ہوں گی۔ اجلاس میں موجود آباد کے نمائندگان عارف حبیب، عقیل کریم ڈھیڈی و دیگر نے مختلف نجی تعمیراتی کمپنیوں کی جانب سے تعمیراتی منصوبوں، جن میں کم آمدنی والے گھروں کی تعمیر بھی شامل ہے، کے بارے میں وزیرِاعظم کو آگاہ کیا۔ نمائندگان نے وزیرِ اعظم کی ذاتی دلچسپی اور حکومتی اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ سطحی کمیٹی کے قیام اور وزیرِ اعظم کی جانب سے ہفتہ وار اجلاسوں میں پیش رفت کے جائزے کے نتیجے میں تعمیراتی منصوبوں سے متعلقہ مراحل نہایت خوش اسلوبی سے طے پا رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم کو ملک کے تین بڑے شہروں ( کراچی، لاہور اور اسلام آباد) میں رجسٹر مال گزاری (کیڈاسٹری) خصوصاً سرکاری اراضی کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے اور ڈیجیٹلائزیشن کے منصوبے میں اب تک کی پیش رفت پر بریفنگ دی گئی۔ چئیرمین ایف بی آر نے ایف بی آر میں تعمیرات کے حوالے سے ریجسٹرڈ منصوبوں اور آئی آر ایس پورٹل کے ذریعے تعمیراتی شعبے سے متعلقہ افراد کی سہولت کاری کے حوالے سے بریفنگ دی۔ صوبائی چیف سیکرٹری صاحبان بشمول چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نے صوبوں میں جاری تعمیراتی سرگرمیوں، منظور شدہ منصوبوں، زیر غور منصوبوں اور نظام کوآن لائن بنانے اور اس میں انسانی مداخلت کم سے کم کرنے کے حوالے سے اقدامات پر وزیر اعظم کو بریفنگ دی۔ وزیر اعظم نے تمام چیف سیکرٹری صاحبان اور ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کے سربراہان کو ہدایت کی کہ منظور شدہ رہائشی منصوبوں کی معلومات کی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹس پر موجودگی اور اس معلومات کی روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیشن کو یقینی بنایا جائے تاکہ جہاں رہائشی منصوبوں میں دلچسپی لینے والے بیرون ملک پاکستانیوں کو مکمل طور پر باخبر رکھا جائے وہاں رہائشی کالونیوں کے نام پر ہونے والے فراڈ اور دھوکہ دہی کا بھی خاتمہ کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر منظور شدہ منصوبوں کے بارے میں معلومات کی بھی باقاعدگی سے تشہیر کی جائے تاکہ عوام کو باخبر رکھا جا سکے۔ وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ بڑے شہروں کے ماسٹر پلان کو ازسر نو مرتب کرنے کے عمل کو تیز کیا جائے اور اس حوالے سے پیش رفت پر باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کیا جائے۔ وزیرِ اعظم نے چیف سیکرٹری صاحبان کو ہدایت کی کہ تعمیراتی شعبے کی سہولت کاری کے حوالے سے ڈیجیٹل پورٹل کے قیام کو رواں ماہ کے وسط تک مکمل کرنے کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ تعمیراتی شعبے کا فروغ معیشت کے استحکام اور معاشی عمل کے فروغ میں کلیدی کردار کا حامل ہے لہذا حکومت اس شعبے کے فروغ کے حوالے سے پرعزم ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت "کراچی ٹرانسفارمیشن پلان" کے حوالے سے اجلاس میں وفاقی وزراء اسد عمر، سینیٹر شبلی فراز، سید امین الحق، سید علی حیدر رضوی، گورنر سندھ عمران اسمعیل (ویڈیو لنک)، چئیرمین این ڈی ڈ ایم اے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل اور متعلقہ محکموں کے سیکرٹری شریک ہوئے ۔ اجلاس میں کراچی کے دیرینہ مسائل کے حل کے حوالے سے جامع منصوبے "کراچی ٹرانسفارمیشن پلان" کا جائزہ لیا گیا۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صاف پانی کی فراہمی، سیوریج، سالڈ ویسٹ منیجیمنٹ، نالوں کی صفائی اور ٹرانسپورٹ کے حوالے سے کراچی کے عوام کو بے شمار مسائل درپیش ہیں۔ بدقسمتی سے ماضی میں ان مسائل کے مستقل بنیادوں پر حل کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں نے جہاں انتظامی ڈھانچے کے مسائل کو اجاگر کیا ہے وہاں کراچی کے عوام کو تحاشہ مسائل سے دوچار کیا ہے جس کا وفاقی حکومت کو مکمل ادراک ہے۔ "کراچی ٹرانسفارمیشن پلان" پر بات کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ منصوبے کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اس پلان کے تحت مختلف منصوبوں پر مقررہ ٹائم لائنز میں عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے بااخیتار اور موثر نظام تشکیل دیا جائے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ کراچی کے مسائل کی سب سے بڑی وجہ انتظامی اختیارات کا منقسم ہونا رہا ہے اور اس امر کی بارہا وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ حالات کا تقاضا ہے کہ واٹر سپلائی سکیم، سیوریج ٹریٹمنٹ اینڈ ڈسپوزل، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے متعلق اختیارات ایک بااختیار ایڈمنسٹریٹر / لوکل گورنمنٹ کو تفویض کیے جائیں۔ وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی دارالحکومت میں ٹرانسپورٹ، پینے کے صاف پانی اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر، مشیر برائے داخلہ مرزا شہزاد اکبر، معاون خصوصی سید ذوالفقار عباس بخاری، معاون خصوصی علی نواز اعوان، ایم این اے راجا خرم شہزاد، چئیرمین سی ڈی اے و دیگر سینئر افسران شریک ہوئے۔ اجلاس میں وفاقی دارالحکومت کے رہائشیوں کو درپیش صاف پانی، ٹرانسپورٹ کے مسائل اور صحت و تعلیم کے حوالے سے ترقیاتی منصوبوں پر غور ہوا۔ زیر التوا اسلام آباد ائیرپورٹ میٹرو بس منصوبے سے متعلقہ معاملات اور ان کے حل پرغور کیا گیا۔ چئیرمین سی ڈی اے نے اسلام آباد کے دیہی علاقوں میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے وزیر اعظم کو بریفنگ دی۔ اسلام آباد ائیرپورٹ میٹرو بس منصوبے کی تکمیل، انتظام اور ٹرانسپورٹ سے متعلقہ معاملات کے حوالے سے اسلام آباد ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ وفاقی دارالحکومت میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے حوالے سے وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ غازی بروتھا سے اسلام آباد کو پانی سپلائی کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کی رفتار کو تیز کیا جائے۔ وزیرِ اعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی دارالحکومت کو ماڈل سٹی بنانے پر بھرپور توجہ دی جائے۔ اس ضمن میں صحت اور تعلیم کی سہولیات میں بہتری لانے پر خصوصی توجہ دی جائے۔ وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ اسلام آباد اور اس کے مضافات میں بغیر کسی منصوبہ بندی آبادی کے پھیلاؤ کے مسئلے کے حل پر ترجیحی بنیادوں پر غور کیا جائے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ گرین ایریاز کا تحفظ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے لہذا اس حوالے سے تجاوزات کی روک تھام یقینی بنائی جائے۔ مزید برآں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مہذب جمہوری معاشرے میں تشدد ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ سے انسداد تشدد بل جلد قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا کہا ہے، تشدد اسلام اور ہمارے آئین کی روح کے منافی ہے، تشدد کا خاتمہ ہماری بین الاقوامی ذمہ داری ہے، مہذب جمہوری معاشرے میں تشدد ناقابل قبول ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان سے ایم این اے عامر محمود کیانی کی ملاقات۔ وفاقی وزیر سید علی حیدر زیدی بھی ملاقات میں موجود تھے۔ وزیر اعظم عمران خان سے پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کے اراکین سینٹ کی ملاقات۔ ملاقات میں میں پارلیمانی امور پر گفتگو ہو گی۔ دریں اثناء سینیٹرز کے اجلاس میں وزیر قانون فروغ نسیم نے اجلاس کو ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی پر بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف قانون سازی روک کر ملک دشمنی کی۔ حکومت اپوزیشن کی بلیک میلنگ میں نہیں آئے گی۔ قانون سازی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کرائی جائے گی۔ اپوزیشن پارلیمنٹ کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے باہر نہ نکلے۔ اپوزیشن ملکی مفاد کے قوانین پر بیٹھی سیاست کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے سینیٹرز کو ایف اے ٹی ایف قانون سازی میں بھر پور حصہ لینے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن کی این آر او کی ڈیمانڈ پوری نہیں کریں گے۔ ایف اے ٹی ایف قانون سازی پی ٹی آئی کا نہیں ملکی مفاد کا معاملہ ہے۔ بل کی منظوری میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو بے نقاب کریں گے۔ سینیٹرز نے حکومتی فیصلوں اور وزیراعظم کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ ذرائع کے مطابق ایف اے ٹی ایف بل کی منظوری کیلئے ہر ممکن کوشش پر اتفاق رائے کیا گیا۔