:پنجاب یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر نے کہا ہے کہ اردو زبان کو فروغ دینا اور مضبوطی سے تھامنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج شعبہ اردو کے زیر اہتمام الرازی ہال میں منعقدہ نامور محقق ڈاکٹر جمیل جالبی کی یاد میں پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی تصنیف ’ارمغان جمیل‘کی تقریب رونمائی سے خطاب کر رہے تھے۔
اس موقع پر وفاقی محتسب (انشورنس)پاکستان ڈاکٹر محمد خاور جمیل، سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی، سہیل وڑائچ، معروف شاعرہ ڈاکٹر صغریٰ صدف، ڈاکٹر خورشید رضوی، سینئر بیورکریٹ قاضی آفاق حسین، محمد سہیل عمر، معروف اداکار شجاعت ہاشمی،چیئرمین شعبہ اردو رپروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر، دانشور، ادیب، شاعر، آرٹسٹ،فیکلٹی ممبران اور طلباء نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اپنے خطاب میں ڈاکٹر محمد سلیم مظہر نے کہا کہ ڈاکٹر جمیل جالبی کے علم و دانش کا سکہ دنیا بھر میں چلتا ہے اور پنجاب یونیورسٹی میں جالبی چیئر کا قیام باعث افتخار ہے۔انہوں نے بہترین تصنیف پر ڈاکٹر زاہد منیر عامر کو مبارک باد پیش کی۔
ڈاکٹر محمد خاور جمیل نے کہا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ان کے والد پر بہترین کتاب شائع کی اور ان کے تخلیقات اور افکار پر تحقیق کے لئے چئیر کا قیام خوش آئند ہے۔ مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ جمیل جالبی بہترین استاد، مدیر، افسر، وائس چانسلر، مصنف، محقق اور دانشورتھے جنہوں نے بامقصد زندگی گزاری۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پاکستانی کلچر کی جڑیں مضبوط ہیں اور ماضی کی نسبت اردو ذیادہ تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیرمیں آرٹیکل 370میں غیر قانونی ترمیم وہاں رائج اردو زبان کی سرکاری حیثیت کوختم کرنے کیلئے کی۔
انہوں نے کہا کہ انگریزی میڈیم میں پڑھنے والوں کو اردوکا ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد ڈگری جاری کرنی چاہیے تاکہ اردو کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ اردو ادب کے حوالے سے تحقیقی کام اتنا نہیں ہوا جتنا کہ ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہا اردو اور فارسی ہمارا سرمایہ ہیں جنہیں زندہ رکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کا مقابلہ کرنے کیلئے اچھی تخلیقات ضرروی ہیں لیکن بد قسمتی سے ہم نے اقبال اور غالب پر اتنا کام نہیں کیا جتنا وہ مستحق تھے۔
انہوں نے اردو ادب کے فروغ میں حصہ ڈالنے پر ڈاکٹر زاہد منیر کی کاوشوں کو سراہا۔ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کہا کہ ادب، کلچر، تہذیب، علمی و تحقیقی میدان میں جمیل جالبی کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی کلچر گلدستہ کی مانند ہیں جنہیں اکٹھا کر کے قومی کلچر کو دنیا میں روشنا س کرانا چاہیے۔
قاضی آفاق حسین نے کہا کہ آئندہ صدی تک ہر اردو دان جمیل جالبی کو ضرور پڑھے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ترقی دینے کیلئے اردو کو اپنا مقام دینا ہوگا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے کہا کہ جمیل جالبی کی شخصیت روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتی ہے جنہوں نے اکیلے ہی اداروں کے برابر کام کیا۔پنجاب یونیورسٹی میں تقریب کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اچھے اساتذہ کی قدروقیمت کا خیال رکھتی ہے۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے کہا کہ جمیل جالبی ہمہ گیر شخصیت کے حامل تھے جن کی فکری لہر نے بہت متاثر کیا۔ انہوں نے کہا معاشرے کی تشکیل کیلئے اجتماعیت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انفرادیت کا تصور رکھنے والے تنہا رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا قوم بنانے کیلئے تعلیم کو اپنی زبان میں عام کرنا ہوگا۔