نیا افغانستان بننے جارہا ، خوشحالی ، امن ہوگا

Sep 04, 2021

تجزیہ : محمد اکرم چودھری
نیا افغانستان بننے جا رہا ہے۔ ایک ایسا افغانستان جہاں خوشحالی اور ترقی ہو گی، تعمیر ہو گی، امن و سکون ہو گا۔ دنیا ایک نیا افغانستان دیکھے گوکہ ابھی بہت سے لوگ اس پر یقین نہیں کریں گے لیکن آنے والا وقت بتائے گا کہ نئے افغانستان کا سفر دو ہزار اکیس میں شروع ہوا تھا۔ حالات کو سمجھنے کے لیے اچھی معلومات کا ہونا ضروری ہے اور اگر آپ کے پاس مناسب معلومات ہوں، ماضی پر نظر ہو اور مستقبل کو سمجھنے کی صلاحیت ہو تو بات کرنا نسبتاً آسان رہتا ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ "نئے افغانستان" کا سفر شروع ہو چکا ہے۔پاکستان کے دورے پر آئے برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے کہا کہ افغانستان کے لیے تین کروڑ پاؤنڈ امداد کی پہلی قسط آج ہی جاری ہو جائے گی، امداد اس لیے جاری ہے کہ افغانستان کے حالات تباہی کی طرف نہ جائیں۔ ڈومینک راب نے افغانستان سے برطانوی باشندوں کے انخلا پر پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ برطانیہ کی طرف سے امداد میں اضافہ امن، استحکام اور ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ چونکہ اب تک طالبان قیادت بہتر انداز اور سمجھداری کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے دنیا کو امن کا پیغام دیا ہے میں نے اس حوالے سے کئی ہفتے قبل لکھا تھا کہ ایران، روس،چین اور پاکستان مل کر افغانستان کی مدد کر رہے ہیں۔ خطے میں پائیدار امن اور کروڑوں انسانوں کے بہتر مستقبل کے لیے معاشی اہداف حاصل کرنے کی حکمت عملی میں افغانستان کو ماضی کی نسبت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ موجودہ حالات میں جنگ میں گھرے افغانستان کی ترقی کے لیے خطے کے اہم ممالک مل کر آگے بڑھ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب جنگ کے بجائے معاشی میدان میں دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔  اسلام ا?باد میں 'افغانستان کی مشترکہ تعمیر نو' کے عنوان سے پاک افغان یوتھ فورم کی بین الاقوامی کانفرنس سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ "چین پاکستان اقتصادی راہداری میں توسیع کر کے اسے افغانستان سے جوڑنا بہت اہم ہے۔ انہوں نے پاکستان کی دیرینہ شراکت کو سراہتے ہوئے کہا کہ قیام امن کی کوششوں اور دوطرفہ تجارت کے فروغ کے لیے پاکستان افغان عوام کی مدد جاری رکھے گا"۔ سی پیک میں افغانستان کی شمولیت کے بعد چین کے مفادات بھی ہوں گے۔ چین کی بھی یہی خواہش اور کوشش ہو گی کہ افغانستان میں امن رہے، تعمیر و ترقی کا سفر چلتا رہے، خطے میں کوئی نئی جنگ نہ ہو،تجارت میں اضافہ ہو یہی نیا افغانستان ہے۔ دنیا کے اہم ممالک کا نقطہ نظر اور سوچ افغانستان کے بارے بدل رہی ہے۔ روس کے صدر ولادی میر  پیوٹن کہتے ہیں کہ "عالمی برادری سے بہتر سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے طالبان افغانستان میں مہذب رویہ اختیار کریں گے۔جلد طالبان کا شمار تہذیب یافتہ افراد میں ہوگا ان سے رابطہ کرنا،بات اور سوال کرنا آسان ہوگا۔ ہمیں افغانستان کی تقسیم میں کوئی دلچسپی نہیں اگر ایسا ہوا تو وہاں کوئی نہیں ہوگا کہ جس سے بات کی جا سکے"۔چند دن پہلے میں نے لکھا کہ یہ بدلے ہوئے طالبان ہیں۔ دوست اس پر بہت ہنسے مذاق بھی بنایا لیکن اب روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن بھی طالبان کو بدلا ہوا کہہ رہے ہیں۔ عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ پاکستان کے لیے حالات بہتر ہو سکتے ہیں، بھارت کی مداخلت کم ہو سکتی ہے۔ بھارت افغانستان اور دیگر راستوں سے پاکستان میں امن و امان کو خراب کرنے کی کوششیں کرتا رہتا تھا۔ اب ایک نیا بلاک بننے جا رہا ہے اس بلاک کی کامیابی میں خطے کی کامیابی اور پائیدار امن چھپا ہوا ہے۔ طالبان نیا افغانستان بنانے کی صلاحیت تو رکھتے ہیں۔ انہیں اندرونی طور پر مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنے اور برداشت کی ضرورت ہے۔  ایک طرف طالبان کے حوالے سے اچھے جذبات ہیں خوش گمانیاں بھی ہیں تو دوسری طرف یورپی یونین کو خدشات بھی ہیں۔ یورپی یونین نے افغانستان میں طالبان حکومت کو فوری طور پر تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عجب بات ہے یورپی یونین کو طالبان سے خطرہ ہے لیکن اشرف غنی کی حکومت میں جس طرح بھارت خطے کا امن تباہ کرنے کے لیے پاکستان میں دہشت گردی کرواتا رہا ہے اس وقت یورپی یونین کو افغان سرزمین کا غیر قانونی استعمال نظر نہیں آیا۔ طالبان نے تو ابھی اپنی حکومت کا اعلان کرنا ہے اسے خواتین کے حقوق کا غم کھائے جا رہا ہے ذرا اپنے ممالک کی بھی خبر لیں کیا حجاب کا استعمال یورپ میں بسنے والی خواتین کا حق نہیں ہے پھر یورپ میں اس حوالے سے کیوں پابندیاں ہیں، طالبان سے خواتین کے حقوق پر سوال ضرور کریں لیکن اپنے علاقے میں بھی دیکھیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کے سربراہ جوزف بوریل کہتے ہیں کہ "افغان عوام کے لیے ہمیں طالبان سے رابطہ کرنا ہو گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کی حکومت تسلیم نہیں کر رہے ہیں"۔ یورپی یونین سخت شرائط عائد کرنے کی بات کرتی ہے لیکن اگر طالبان کہیں کہ ہم بھی آپکو تسلیم نہیں کرتے تو کیا ہو گا۔ طالبان کے ساتھ سختی یا شدت پسندی کے بجائے نرم اور معتدل رویے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے ساتھ دو دہائیوں تک جو کچھ کیا گیا ہے اس کے بعد کوئی خطرہ ان کے لیے خطرہ نہیں رہا کوئی مشکل ان کے لیے مشکل نہیں رہی۔ بہتر یہی ہے کہ انہیں اپنے ملک ہی تعمیر و ترقی کا موقع دیا جائے اور مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا جائے۔

مزیدخبریں