بدلتے وقت کے ساتھ محاوروں کی ہیئت ترکیبی بھی بدلتی جا رہی ہے۔ ایک محاورہ ہے۔ ’’لذت کام و دہن‘‘ آجکل اس محاورے کی ہیئت ترکیبی کچھ یوں مرتب کی گئی ہے۔ یعنی ’’لذت سماعت و بصارت‘‘ اور اس لذت کا سارا سامان ایک بڑی ڈش (ٹی وی سکرین) پر سجا دیا گیا ہے۔ اگرترغیب طاقتور نہ ہوتی تو تاجر اپنی اشیاء کی فروخت کیلئے لاکھوں روپے خرچ نہ کرتے اور ماڈلز ان اشتہاروں کا حصہ نہ بنتیں۔ میڈیا آجکل تاجروں کا ایک ایسا ٹولہ بن چکا ہے جنہوں نے ایسے مقدمات کو کمائی کا دھندا بنا رکھا ہے جو جگ ہنسائی اور بدنامی کا باعث بن چکا ہے۔ جب میرے صحافی کے پاس ٹوٹی ہوئی سائیکل ہوتی تھی اور عینک کی کمانیوں کی جگہ ڈور بندھی ہوتی تھی تو وہ سچ بولتا تھا۔ آج جب صحافیوں کے پاس ذاتی ہوائی جہاز اور لگژری گاڑیاں ہیں تو وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ جس دن عمران خان میڈیا کو لگام ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے اس دن وہ حکومت کے کامیاب گھڑ سوار بن جائیں گے۔ اب آتے ہیں ان تین خواتین کی داستان کی طرف جس کو میڈیا نے ایسی داستان زیبا بنا دیا ہے جس میں سب گرفتار ہو چکے ہیں جس کو میں آپریشن ٹیبل پر رکھ رہی ہوں۔ جب یہ تھیٹر سے باہر نکلیں گی میڈیا کے ڈاکٹروںنے انکی ایسی کاسمیٹک سرجری ہوگی کہ آپ انہیں پہچان بھی نہ سکیں گی۔ آپ نے ضرور سنا ہوگا کہ بعض اوقات کاسمیٹک سرجری کے نتائج اتنے بھیانک ہوتے ہیں کہ مریض اپنے آپ کو ہی نہیں پہچان سکتا۔ بہرحال بات شروع کرتے ہیں نورمقدم سے، سب سے پہلے تو یہ تجویز عدالت اور حکومت کے سامنے رکھ رہی ہوں کہ طاہر جعفر جیسے قاتلوں کو عدالت کے اکھاڑے میں ڈالنا ہی نہیں جاہئے۔ ایک قاتل کا قتل اپنی مکمل تفصیل اور شواہد کے ساتھ ثابت ہو چکا ہے۔ اس کیس میں تو ایک دن کی بھی تاخیر یا کارروائی نہیں ہونی چاہئے۔ ایسے بدمعاش اور سفاک قاتل کی پھانسی مقدر ہونی چاہئے۔ اور بس۔ اب آتے ہیں اس قتل کی داستان کی طرف۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ نور مقدم اور طاہر جعفر دونوں اعلیٰ خاندانوں کی آنکھوں کے نور اور چراغ تھے۔ دونوں میں دوستی تھی اور وہ یورپی معاشرے کی طرز پر Living Relation Ship میں تھے۔ دو چار مہینوں سے دونوں کے آپس کے تعلقات کشیدہ تھے۔ طاہر نے باطن میں ایک سازش سوچی اور نور مقدم کو یہ کہہ کر اپنے گھر بلوا لیا کہ وہ اس کی جدائی کے غم میں ملک سے باہر جا رہا ہے اور اسی رات جانے سے پہلے اسے ملنا چاہتا ہے۔ نور بی بی فوراً اسکے پاس پہنچی۔ دونوں نے فائیوسٹار ہوٹل سے کھانا منگوا کر نوش کیا اور پھر گپ شپ کے دوران کوئی تلخی ہوئی اور طاہر نے اپنے آپ کو مصر کا بااختیار اظہر شاہ سمجھتے ہوئے نور کا سَر تن سے اس طرح جدا کر دیا جس طرح اپنے سامنے پڑی پلیٹ میں بڑے سٹیک مِیٹ کو چھری سے کاٹ کاٹ کر کھا رہا تھا۔اب لاتے ہیں مختاراں مائی کو میڈیا کے کٹہرے میں۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ ایک 11 سال کے لڑکے نے نازیبا حرکت کرڈالی جس پر لڑکی کے 10,8 رشتہ دار مردوں نے غصے میں آ کر اس لڑکے کی بہن جو مطلقہ تھی اسے نشانہ بنا ڈالا بہت عرصہ تک معاملہ دو خاندانوں میں الجھا رہا ۔ اُڑتی ہوئی خبر کسی طرح کٹی پتنگ کی طرح میڈیا کے آنگن میں گِر پڑی اور پھر پورا میڈیا اس پتنگ پر ٹوٹ پڑا اور اس کی ایسی چیر پھاڑ کر دی اور پھر مختاراں مائی کی صورت میں ایسی مرغی اُن کے ہاتھ لگ گئی جو دھڑا دھڑا سونے کے انڈے میڈیا کے دامن میں ڈال سکتی تھی۔ مرغی کی ایسی آئو بھگت کی گئی کہ میڈیا کے اپنے طاقتور بازئوں میں بھرکر اُسے نوبل پرائز کے وکٹری سٹینڈ پر کھڑا کر دیا وہ اور کوٹ پہنے ہاتھوں میں قیمتی دستانے پہنے ترقی یافتہ ملکوں کے ایئر پورٹس پر ملکہ کی طرح Receive کی جاتی اور این جی اوز کے بڑے بڑے افسران اس سے مصافحہ کرتے اور غیر ملکی صحافی ایک دوسرے پر گرتے پڑتے اس کی تصویریں اُتارتے اور وطن واپسی پر اسے سکیورٹی گارڈز عطا کر دئیے گئے بعد میں اس نے اپنے چیف سکیورٹی گارڈ سے بیاہ رچا لیا اللہ اللہ اور خیر سَلہ وہ مختاراں مائی کے ساتھ بڑی بڑی تقریبات میں بڑے بڑے کھانے اُڑاتا اور اس کی پہلی بیوی بچوں سمیت بڑے لوگوں کے گھروں میں روزی کمانے جاتی۔ انہی دنوں میں نے اس مائی مختاراں کیس کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا کہ آج کل امریکہ انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے افغانستان اور عراق پر کارپٹ بمباری کر رہا ہے پاکستان کو الرٹ رہنا چاہئے کیونکہ وہ مختاراں مائی کی خاطر کسی بھی وقت پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے کیونکہ یہ معاملہ انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے۔ اب آتے ہیں موٹروے حادثے کی طرف۔ ایک اکیلی خاتون آدھی رات کو اپنی گاڑی کا دانہ پانی چیک کئے بغیر اپنے سوئے ہوئے تین بچوں کو گاڑی میں ڈال کر کسی رشتہ دار کو ملنے موٹروے پر آ نکلی جب گاڑی بھوک سے نڈھال ہو کر رُک گئی تو اُس نے پولیس کو فون کیا کہ میں فلاں جگہ اس صورتحال میں ہوں اکیلی ہوں میرے ساتھ کوئی مرد نہیں وغیرہ وغیرہ۔ مرد پولیس اہلکار فوراً اس خاتون کے پاس حاضر ہوئے۔ ظاہر ہے پولیس کا کام ہی مدد کرنا ہے وہ فوراً اپنی مردانہ مدد دینے کے لئے خاتون کے پاس آناً فاناً پہنچ گئے اور پھر کہانی کا اگلا حصہ یہ ہے کہ پھر میڈیا نے پورے ملک کے ناظرین کو موٹروے پر دھکیل دیا۔ جزئیات لگا دی گئی ایسی ایسی تفصیلات سامنے آئیں کہ اصل مقدمہ داخلِ دفتر ہو گیا اور میڈیا پرہن برس گیا۔