اسامہ بن لادن کے قتل کو اس صدی کا سب سے بڑاقتل کہا جاسکتا ہے۔امریکہ اسی کی تلاش میں لائو لشکر کیساتھ سات سمندر پار آیا تھا۔اسامہ کو طالبان نے امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار تو امریکہ بپھر گیااور پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا اور تاریخ ابھی زیر تحریر ہے۔اسامہ کو ہلاک کرکے امریکہ نے اسکی میت سمندر میں جہاز کے ذریعے گرا دی۔اپنی طرف سے بن لادن کا وجود امریکہ نے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا اسکی خاک کی ڈھیری بھی نہیں بننے دی۔نہ جانے امریکہ کو اسکی قبر سے کیا خطرہ تھا۔امریکہ کے افغانستان بیس سال زیرِ یلغار رہا۔بالآخر ان لوگوں کے ساتھ امن معاہدہ کرکے واپس چلا گیاجن کو دہشتگرد قرار دے کر ان کیساتھ برسرِ پیکار رہا۔جب تک دنیا کا وجود ہے امریکہ کی افغانستان میں ذلت و رسوائی کا چرچا رہے گا۔جب بھی کہیں اس حوالے سے بات ہوگی تو بن لادن کا ذکر ہونا فطری امر ہے۔قبر ہے یا نہیں ۔۔۔اگرہے تو کہاں ہے؟ نہیں ہے تو کیوں نہیں؟ایسے سوالوں کی زیادہ اہمیت نہیں ہوگی۔ارسطو، افلاطون،سقراط بقراط بڑے بڑے مذہبی پیشوائوں اور نمرود و فرعون جیسے راندۂ درگاہ لوگوں کی قبروں کا کے بارے میں لوگ کم انکے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔
علی گیلانی اپنے ہی وطن میں بھارت کی سفاکیت اور بربریت کا نشانہ بنتے رہے۔قید کے دوران وہ شہید ہوگئے۔ ان کو بھارت نے زبر دستی انکی وصیت کے برعکس دفن کردیا۔قابض پولیس نے سید علی گیلانی کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا، اہل خانہ کوہراساں کیا، میت کو ان سے چھین کرجمعرات کی صبح جبری سپرد خاک کر دیا۔ بزرگ حریت رہنما کی میت کو زبردستی تحویل میں لینے کے دوران مزاحمت پر قابض پولیس کے تشدد سے علی گیلانی کا بیٹا اور بہو زخمی زخمی ہو گئے۔
سری نگر میں سخت کرفیو نافذ ہے اور کسی بھی جگہ جلسے یا تعزیتی اجتماعات منعقد کرنے یا جلوس نکالنے پر پابندی ہے۔ سید علی گیلانی اور ان کے اہل خانہ چاہتے تھے کہ ان کی تدفین سرینگر کے مزار شہدا میں کی جائے۔ بھارتی قابض انتظامیہ نے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت کے خوف سے انہیں اسکی اجازت نہیں دی۔ انہیں حیدر پورہ میں اپنے گھر سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر دفن کیا گیا۔ بھارتی فورسز جبر کے ہتھکنڈوں اور حربوں سے یہی کچھ کرسکتی تھیں۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔یہ بھارت ہی ہے جس نے کشمیری لیڈر مقبول بٹ کو بغیر اسکے کسی جرم کے تہاڑ جیل میں پھانسی دی اور وہیں اسے دفن کردیا اس سے مقبول کی مقبولیت میں کمی نہیں آسکی۔علی گیلانی کو انکی وصیت کے مطابق دفن کردیا جاتا تو بھارت کا کچھ نہ جاتا ۔جبری تدفین کرکے بھارت خود ایکسپوز ہوا ہے۔علی گیلانی کس بلند بایا شخصیت کے مالک تھے اس کا اندازہ دنیا بھر میں ان کیلئے کہے گئے کلمہ خیر اور جگہ جگہ ادا کئے جانیوالے غائبانہ نمازِ جنازہ سے ہوتا ہے۔بھارت کے تمام تر جبر کے باوجود علی گیلانی کو پاکستانی سبز ہلالی پرچم میں سپرد خا ک کیا گیا۔انہوں نے پاکستان سے وفا کا حق ادا کردیا۔
زیر نظر تحریر سے قبل میری ملک نسیم احمد آہیر سے بات ہوئی۔وہ جنرل ضیاء الحق کے قریبی اور معتمد ساتھی رہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ جونیجو حکومت میں فوج کے نمائندہ وزیر تھے۔جنرل ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کا خاتمہ کیا تو نسیم احمد آہیر کو نگران حکومت میں وزیرداخلہ برقرار رکھا اسکے ساتھ امور کشمیر اور شمالی علاقہ جات کی وزارت بھی تفویض کردی۔اس موقع پر جنرل ضیاء الحق نے انہیں بریفنگ کیلئے بلایا۔
آہیر صاحب کہتے ہیں کہ امور کشمیر کی وزارت ملنے پر میں صدر جنرل ضیاء الحق سے ملا تو میں نے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی تجویز دی جس پر جنرل صاحب نے ایک لیکچر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ اسکے حل تک بھارت کے ساتھ بات ہی نہیں ہو سکتی۔ کشمیر پر کسی صورت سودے بازی اور سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ اسے کسی بھی صورت پاکستان کا حصہ بنانا ہے۔ پاکستان دو قومی نظریے پر وجود میں آیا۔ کشمیر پر سمجھوتہ دو قومی نظریے کی نفی ہو گی۔ دو قومی نظریے کی نفی پاکستان کے وجود کی نفی ہے۔ استصواب بہترین حل ہے جو جب بھی ہوا کشمیری پاکستان کے ساتھ ہی شامل ہونگے۔نسیم آہیر کہتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف آرمی چیف تھے ان تک بھی یہ بات میں نے پہنچائی تو انہوں نے بھی کشمیر کو تقسیم کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا جبکہ چین کے صدر شی جن پنگ نے یہی بات دوسرے پیرائے میں کی کہ کشمیر تاریخ کا چھوڑا ہوا ایجنڈا ہے۔ وزارت کشمیر کے ذمہ دار ہونے کے ناطے آہیر صاحب کے کشمیری لیڈروں کے ساتھ بھی تعلقات تھے۔وہ سید علی گیلانی کی وفات پر بڑے رنجیدہ تھے۔
جنرل ضیاء الحق کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج جس طرح افغانستان میں طالبان امریکہ کو شکست دے کر اقتدار میں پھر آئے ہیں ضیاء الحق زندہ ہوتے تو طالبان کیساتھ جشنِ فتح میں ضرور شریک ہوتے۔نسیم آہیر نے عطاء اللہ مینگل کے انتقال پر بھی اظہار افسوس کیا۔ان کی نظر میں مینگل صاحب بڑے قد کاٹھ کے سیاستدان تھے۔جس ملاقات میں جنرل ضیاء نے ان کو بریفنگ دی تھی اسی میں عطاء اللہ مینگل کا بھی تذکرہ ہوا۔جنرل صاحب نے بتایا کہ جب انہوں نے ٹیک اوور کیا تو مینگل سمیت کئی قوم پرست رہنما قید تھے۔جنرل ضیاء الحق ان سے جاکر ملے اور رہائی کا حکم دیا۔ حسبِ عادت ضیاء الحق نے پوچھا۔ ’’میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے‘‘اس پر مینگل نے کہا کہ وہ علاج کیلئے باہر جانا چاہتے ہیں۔اس پر ضیاء صاحب نے کہا۔’’ آپ جس بھی ملک جانا چاہیں ایک میڈیکل کا لیفٹیننٹ کرنل آپ کیساتھ جائے گا اور سارا خرچہ حکومت کا ہوگا۔‘‘۔اس پر بقول جنرل ضیاء کے مینگل کی آنکھوں میں یہ کہتے ہوئے آنسو بھی آگئے کہ ایسا اچھا سلوک ہمارے ساتھ کبھی نہیں کیا گیا۔انہوں نے خرچہ لینے سے نکار کیا مگر تمام ادائیگی حکومت نے ہی کی۔ برسبیل تذکرہ اسی ملاقات میں جنرل ضیاء ا لحق سیاستدانوں کے بارے میں بتا رہے تھے کہ یہ اجارہ دار اور۔۔۔ہیں۔میں نے کہا اچھے بھی ہیں،بااصول اور خودداربھی ہیں۔جنرل صاحب نے کہا کسی ایک کا نام لیں۔میں نے غوث بخش بزنجو کا نام لیا توانہوں نے کہا۔شہنشاہ ایران پاکستان آئے۔انکے اعزاز میں کھانا دیاگیا۔بزنجو صاحب بھی مدعو تھے۔مگر وہ لیٹ ہوگئے تو انکی کرسی ہٹا دی گئی۔کھانے کے دوران ہی وہ چلے آئے تو انکی کرسی لانے کو کہا گیا۔بزنجو نے اس موقع پر کہا کرسی کی ضرورت نہیں میں شہنشاہ کے قدموں میں بیٹھ جائوں گا۔