اس وقت ملک کے چاروں صوبے سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ بہت بڑی آفت ہے جس کے تدارک کی کوشش حکومتیں کر رہی ہیں۔ کچھ نیک نام ادارے بھی امدادی کاموں میں دن رات لگے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ انفرادی طور پر بھی اس کارِ خیر میں حصہ لے رہے ہیں۔ دنیا بھر سے بھی کچھ نہ کچھ مالی اور اندمالی مدد آ رہی ہے۔ فوری طور پر نہ سہی تاہم چند روز یا چند مہینوں میں حالات معمول پر آ جائیں گے۔ شرط یہ ہے کہ پہلے کی طرح کچھ لوگ اس کام کو بھی زراندوزی کا ذریعہ نہ بنا لیں۔ قدرتی آفات دنیا بھر میں آتی ہیں۔ چند ماہ پہلے امریکا کے بعض علاقے بالخصوص نیویارک اور نیو جرسی میں سیلاب نے بہت تباہی پھیلائی تھی مگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں تکالیف کا ازالہ منظم طریقے سے کیا جاتا ہے اور جلد از جلد کیا جاتا ہے جب کہ ترقی پذیر ملکوں میں یہ کوششیں غیر مربوط ہوتی ہیں اور کسی نظم و ضبط سے محروم رہتی ہیں۔
ہمارا شمار ترقی پذیر ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ ایک لحاظ سے بڑی پُرفریب اصطلاح ہے۔ اس سے یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں مگر بہت سے ترقی پذیر ممالک دراصل زوال پذیر ممالک ہیں۔ یہ بہت بڑا سوال ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک کیوں اتنے غریب اور پس ماندہ ہیں؟ کسی زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ قدرت نے ان ممالک کو وہ ذرائع نہیں دیے کہ وہ ترقی کر سکیں مگر اب ماہرینِ اقتصادیات یہ کہتے ہیں کہ قدرتی ذرائع کی کمی کے باوجود ہر ملک ترقی کر سکتا ہے اگر اس کے کرتا دھرتا سوچ سمجھ رکھتے ہوں، وہ پرخلوص ہوں، اپنی ذاتی تجلیل پر ملکی ترقی کو ترجیح دیتے ہوں، صحیح منصوبہ بندی کریں اور لوگوں کو کسی باضابطہ طریقے سے ترقی کی منازل کی طرف لے جائیں۔ دو عالمی جنگوں میں جرمنی اور جاپان پوری طرح تباہ ہو گئے تھے مگر آج وہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سرِفہرست ہیں۔ ان کے منصوبہ ساز اس بات سے آگاہ تھے کہ شکست خوردہ قوم کو پھر سے ترقی کی راہ پر کیسے لگایا جاتا ہے؟
پاکستان میں 1971ءکے آخر میں ملک کے دو لخت ہونے کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو برسرِاقتدار آئے تو انھوں نے چین کا دورہ کیا۔ ان کے وفد میں شامل ایک اہم شخص نے چند سال بعد اپنے حلقہ¿ احباب کو بتایا کہ جب ہمارے اس ذہین اور متحرک لیڈر نے چواین لائی سے آئندہ ملکی ترقی کے لیے مشورہ مانگا تو اس عظیم چینی لیڈر نے کہا کہ شکست خوردہ قوموں کو احساسِ زیاں ہوتا ہے اور اگر انھیں اچھی منصوبہ بندی کے ذریعے متحرک کیا جائے تو وہ بڑے جذبے سے منصوبوں کی تکمیل میں لگ جاتی ہیں مگر اس کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ غریب ملکوں کے لیڈر اپنی زندگیاں تبدیل کریں۔ سادگی سے خود بھی زندگی گزاریں اور لوگوں کو مثال بن کر دکھائیں، تب لوگ بھی عملی طور پر کچھ کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں مگر بھٹو سمیت ہمارے لیڈروں کا طرزِ زندگی نوابوں اور بادشاہوں جیسا ہے چنانچہ ان کے ارد گرد جو لوگ پروانہ وار گردش کرتے ہیں وہ بھی عام آدمیوں جیسی زندگیاں گزارنے پر کیسے آمادہ ہو سکیں گے؟ حبیب جالب نے بڑے پتے کی بات کہی ہے:
جیو ہماری طرح سے مرو ہمارے طرح
نظامِ زر تو اسی سادگی سے جائے گا
دو عالمی جنگوں میں تباہ ہونے والے ملکوں میں سے ایک میں مجھے چند سال گزارنے کا موقع ملا۔ اس کی وجہ سے مجھے کچھ اندازہ ہے کہ مکمل طور پر تباہ ہونے کے باوجود جاپان کیسے پھر سے انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں شامل بن گیا۔ وہاں مجھے کچھ ایسے لوگ ملے جنھوں نے مجھے بتایا کہ بمباری سے ٹوکیو بالکل تباہ ہو گیا تھا۔ تمام بڑی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں۔ نظامِ رسل و رسائل بالکل برباد ہو گیا تھا۔ اگرچہ دوسری عالمی جنگ میں انھیں مکمل شکست ہو گئی تھی مگر دو دہائیوں کے اندر اندر امریکا سے لے کر مشرقِ بعید تک اکثر عالمی منڈیوں میں ان کی ٹیکنالوجی اور مصنوعات دوبارہ چھا گئیں اور ان گنت زرِمبادلہ حاصل کرنے لگیں۔
جاپان سیکڑوں جزائر پر مشتمل ملک ہے۔ پورا ملک سطحِ مرتفع ہے۔ ملکی ضروریات کے مطابق پانی بہت کم ہے۔ زمین بنجر ہے۔ کھیتی باڑی بہت محدود رقبے پر ہوتی ہے۔ معدنیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تیل اور گیس بھی درآمد کرنی پڑتی ہیں۔ قدرتی ذرائع کے قلیل ہونے کے باوجود جاپان اتنی ترقی کیسے کر گیا؟ اس بات پر ہمارے لیڈروں کو، خاکی اور سفید پوش انتظامیہ کو اور دانش وروں کو باہم مل کر سوچنا چاہیے۔ سب سے پہلے ہمارے لیڈروں کو جذباتیت سے دامن چھڑانا چاہیے۔ آپ جب ایک دوسرے کو گالیاں دیں گے تو باہم بیٹھ کر مسائل پر کیسے غور کریں گے اور کیسے ان کا حل تلاش کریں گے؟ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ اگر کچھ ترقی ہو بھی تو اس کے مقابلے میں آبادی کا غیر معمولی پھیلا¶ ذرائع کو محدود کرتا چلا جاتا ہے۔ درآمد اور برآمد میں توازن پیدا کرنا کسی قوم کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے مگر ہماری درآمدات بہت زیادہ ہیں اور برآمدات بہت کم۔ ہم ایسی پالیسی کیوں نہیں اپنا سکتے کہ یہ توازن بہتری کی جانب مائل ہو سکے۔ قرض لے لے کر کسی قوم نے کبھی ترقی نہیں کی اور نہ ہی ہم کر سکتے ہیں۔
ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ ہمارا نظامِ تعلیم ہے جس کے لیے ہم وفاقی بجٹ میں دو فیصد رقم مختص کرتے ہیں اور اس کا بھی خاصا بڑا حصہ نام نہاد اعلیٰ تعلیم پر صرف کرتے ہیں مگر یہ تعلیم رٹا اور نقل در نقل کا نظام مستحکم کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہی۔ پرائمری تعلیم جو بعد کی تمام تعلیم کی بنیاد ہے، تباہ کن تجربات کی نذر ہو رہی ہے۔ حال ہی میں یکساں تعلیم کے نام پر اردو کی جو کتابیں رائج کی گئی ہیں ان کے لکھنے والوں کو سرے سے پرائمری تعلیم کا کچھ پتا نہیں۔ وزرائے تعلیم خود تو ہیں ایچی سن کالج سے اور تعلیم دینے نکلے ہیں غریبوں کے بچوں کو جن کے ماحول، مزاج اور ضروریات سے وہ کلیةً ناواقف ہیں۔ مسائل بہت زیادہ ہیں جن کو نواز و شہباز، زرداری و بلاول، عمران و شفقت محمود وغیرہ وغیرہ سرے سے نہیں سمجھتے۔ انھیں اللہ ہی سمجھا سکتا ہے۔
انھیں اللہ ہی سمجھا سکتا ہے
Sep 04, 2022