اسلا م آبا د (خصوصی نامہ نگار+نمائندہ خصوصی) ڈائر یکٹر جنر ل آئی ایس پی آر میجر جنرل با بر افتخا ر نے کہا ہے کہ اس وقت ملک بھر میں پاک افواج کے147ریلیف کیمپس جس میں 50ہزار سے زائد متاثرین کو ریلیف مہیا کیا گیا ہے جبکہ 250میڈیکل کیمپس جس میں آرمی ڈاکٹرز، نرسنگ اور پیرامیڈیکس سٹاف اب تک 83ہزار سے زائد مریضوں کو فری طبی امداد فراہم کر چکے ہیں ،آرمی نے سیلاب متاثرین کیلئے 3دن کا راشن جو کہ تقریبا 1685ٹن جبکہ25ہزار تیار کھا نے اور کثیر تعداد میں 8اور 4 آدمیوںکے لیے ٹینٹ بھی سیلاب سے متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کئے ،ملک بھر میں284 فلڈ ریلیف کو لیکشن پوائنٹس ہیں ان ریلیف کو لیکشن پوائنٹ میں 2294ٹن راشن جبکہ311 ٹن سے زائد ضروریات ِ زندگی کی بنیادی اشیاء اور 10لاکھ70ہزار سے زائد ادویات پورے پاکستان کے لوگوں نے جمع کروائی ہیں۔جبکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے سیلاب کو بڑی ماحولیاتی افت اور انسانی بحران قرار دیتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ گلوبل وارمنگ کی تباہ کاریوں سے شدید متاثر ہونے والے پاکستان کی فوری امداد کرے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اب تک سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں افواجِ پاکستان کی ریلیف اینڈ ریسکیو مصروفیات کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ بارشوں سے پیدا ہونے والے مسائل کے آغاز سے ہی افواجِ پاکستان اپنے بہن بھائیوں کی مدد کے لئے متاثرہ علاقوں میں پچھلے2ماہ سے دن رات مصروفِ عمل ہیں۔ افواجِ پاکستان کا ہر ایک سپاہی اور آفیسر اسے ڈیوٹی کی بجائے ایک مقدس فریضہ سمجھ کر عوا م کے مسائل کو کم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔یہی وہ جذبہ تھا جِس کے تحت گزشتہ ماہ لیفٹیننٹ جنرل سرفرازعلی، میجر جنرل امجد حنیف، بریگیڈئیر محمد خالد، میجر سعید احمد، میجر محمد طلحہٰ منان اور نائیک مدثر فیاض بلوچستان کے علاقے لسبیلہ (وِندر) میں سیلاب سے متاثرہ اپنے بہن بھائیوں کی مدد کے دوران ہیلی کاپٹر حادثے میں جام شہادت نوش کیا۔ ڈائر یکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ پاکستان آرمی نے موجودہ صورتحال کے پیش نظر اور سیلاب متاثرین سے اظہارِ یکجہتی کیلئے یومِ دفاع کی مرکزی تقریب مؤخر کردی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطا بق شہداء پاکستان ہمارا اثاثہ ہیں جن کے دَم سے ہم ایک آزاد وطن میں سانس لے رہے ہیں۔ جولائی اور اگست میں ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کرنے کا عزم کیا گیا اور اس حوالے سے آرمی چیف نے خصوصی ہدایات دیں۔ آرمی چیف کی ہدایات کے مطابق مشکل کی اس گھڑی میں ہم عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے چاہے اس کے لئے کتنا ہی وقت اور کوشش درکار ہو۔ آرمی چیف نے سندھ، بلوچستان،خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے تفصیلی دورے کئے ہیں اور وہاں پر جاری امدادی کارروائیوں کا جائزہ بھی لیا ہے۔اب تک276 ہیلی کاپٹر سوٹیزمختلف علاقوں میں اپر یٹ کی گئی ہیں۔خراب موسم اور دیگر مشکلا ت کے باوجودپاکستان آرمی ایوی ایشن کے پائلٹس نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر نا صرف لوگوں کو ریسکیوکیا بلکہ اْن تک ضروری ریلیف ائٹم کی دستیابی کو بھی یقینی بنایا۔کسی بھی ہنگامی صورتحال میںکے پی کے کی ہیلپ لائن 1125 جبکہ باقی صوبوں کے لئے آرمی ہیلپ لائن1135پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان نیوی کی ایمرجنسی رسپانس ٹیمز اورڈائیونگ ٹیمز ملک بھر میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے مصروفِ عمل ہیں۔ پاکستان نیوی نے اب تک تقریباََ 10ہزار متاثرین کو ریسکیوکیا ہے۔’آرمی ریلیف فنڈ اکاؤنٹ برائے سیلاب زدگان‘‘ بھی قائم کیا گیا جس میں ملک بھر سے لوگ اپنے متاثرہ بہن بھائیوں کیلئے دل کھول کر مدد کرر ہے ہیں۔ اب تک آرمی ریلیف فنڈ میں 417ملین روپے جمع ہو چکے ہیں جبکہ پچھلے 24گھنٹوں کے دوران44ملین روپے جمع ہو ئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کی لیڈر شپ بھی آرمی چیف سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی ہر ممکن مدد کے لئے اقدامات کئے جا سکیں۔ عوام کا اعتماد افواجِ پاکستان کا اثاثہ ہے۔ ہمیشہ کی طرح مشکل کی اس گھڑی میں بھی عوام کے تعاون سے ہم اس ناگہانی آفت سے نجات پا لیں گے۔ نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈی نیشن سینٹر میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار اور چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہاکہ رواں سال مون سون سیزن کے دوران پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سیلاب آیا۔ پاکستان کوحالیہ تاریخ میں دنیا میں سب سے بڑی موسمیاتی آفت اور نقصان کا سامنا ہے جس میں 3کروڑ 30 لاکھ آبادی سیلاب سے شدید متاثر ہوئی ہے۔ امریکا اور جاپان اس طرح کی قدرتی آفات کے سامنے بے بس نظر آئے، پاکستان میں اس المیے کا پیمانہ حکومت اور وسائل کے مقابلے میں بہت بڑا ہے تاہم ہمارا عزم چٹان کی طرح مضبوط ہے۔ حکومت کا کوئی ادارہ یا کوئی وفاقی یا صوبائی حکومت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اس کے لیے پوری قوم نے مل کرمقابلہ کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ علاقوں میں بارش 1500 ملی میٹر تک ہوئی جہاں معمول کے مطابق 15 یا 20 ملی میٹرتک ہوتی تھی، ملک سے بلوچستان کو جوڑنے والی 14 بڑی شاہراہیں جن کا ملکی معیشت میں بڑا کردار ہے وہ متاثر تھیں تاہم این ایچ اے کی کاوشوں سے اور مسلح افواج کے انجینئرز نے 11 کو بحال کردیا ہے، صرف 3 ہائی ویز پر جزوی بلاک ہیں۔ سندھ میں پانی آہستہ آہستہ اتر رہا ہے، یہاں علاقے سمندر کا منظر پیش کر رہے ہیں۔یہاں 230 اموات ہوئیں، منڈا ہیڈورکس کو نقصان پہنچا، پنجاب میں ڈیرہ غازی خان ڈویڑن کو سیلاب نے متاثر کیا، یہاں 54 افراد جاں بحق ہوئے، 81 متاثرہ گرڈ سٹیشنوں میں سے 69 بحال ہو چکے ہیں، 881 فیڈر متاثر ہوئے ان میں سے 758 بحال ہو چکے ہیں، صوبہ بلوچستان میں متاثرہ لائینوں میں سے 6 بحال ہوچکی ہیں۔ ساڑھے تین ہزار ٹیلی مواصلات ٹاور متاثر ہوئے، ان میں سے 2900 بحال ہوچکے۔انہوں نے کہا کہ آج وہ وقت ہے کہ جب ہم سب کو مل کر اپنے حصے کا کام کرنا چاہئے۔ ہمارے لئے موقع ہے کہ ہم مشکل کی اس گھڑی سے نکلیں۔احسن اقبال نے عالمی برادی سے پاکستان کے لیے امداد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ملک بڑی ماحولیاتی تباہی اور انسانی المیے کا سامنا کر رہا ہے جو گلوبل وارمنگ کے باعث موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ جو پاکستان کا پیدا کردہ نہیں۔ بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے، ہم اپنے پاکستانیوں ، تارکین وطن اور عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ متاثرین کی بھرپور مدد کریں تاکہ متاثرہ علاقوں میں زندگی معمول پر آ سکے، ہم اپنے ترقیاتی شراکت داروں کی امداد کے بھی منتظر ہیں تاکہ لوگ اپنے گھروں میں آباد ہو سکیں اور معمول کی زندگی بسر کر سکیں۔ چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز نے کہا کہ سال 2022 موسمیاتی تبدیلی کی تلخ ترین حقیقیتیں لے کر سامنے آیا، اس سال بہار کا موسم نہیں آیا، اس سال ہیٹ ویو کی 4 لہریں ائیں، ملک کے طول و عرض میں جنگلات میں اگ لگنے کے واقعات ہوئے، مون سون کی غیر معمولی بد ترین 190 فیصد سے زیادہ بارشیں ڈھائی سے تین ہفتے قبل شروع ہوئیں۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں 436 فیصد اور سندھ میں 464 فیصد زیاد بارشیں ہوئیں، اس دوران خیرپختونخوا اور گلگت بلستان میں گلوف کے واقعات بھی ہوئے۔اب تک ملک بھر میں 12 سو 65 لوگوں کی اموات ہوچکی ہیں جب کہ 12 ہزار 577 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ٹوٹل 5 ہزار 563 کلومیٹر کی سڑکوں کو نقصان ہوا ہے، 243 پل، 10 لاکھ 42 ہزار 723 گھر تباہ ہوئے ہیں، اس دوران 7 لاکھ 35 سے زائد لائیو اسٹاک کا نقصان ہوا ہے۔ قومی ایمرجنسی نافذ کی گئی، نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے سروے کا کام شروع کردیا گیا ہے 4 روز کے دوران امدادی سامان کی 29 پروازیں آچکی ہیں ، فرانس اور قطر کی جانب سے ایک میڈیکل ٹیم بھی آئندہ دو روز کے دوران پہنچنے والی ہے۔قبل ازیں، اسلام اباد میں نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈینیشن سینٹر میں سیلاب کی صورتحال پر پہلا باضابطہ اجلاس منعقد کیا گیا۔اجلاس کے دوران سیلابی صورتحال کا جائزہ لیا گیا،
نیویارک‘ اسلام آباد (این این آئی)اقوام متحدہ کے اداروں نے پاکستان میں تباہ کن سیلابوں پر اپنے ردعمل کو تیز کرتے ہوئے 30 لاکھ سے زائد بچوں تک پہنچنے کے لیے نئے سرے سے مزید فنڈز کیلئے مطالبہ کیا گیا ہے جنہیں امداد کی اشد ضرورت ہے۔یونیسیف پاکستان کے نمائندے عبداللہ فادل نے بتایا کہ ملک میں تقریباً 34 لاکھ بچوں کو زندگی بچانے کی انتہائی ضروری امداد فراہم کرنے کے لیے 37 لاکھ ڈالر درکار ہیں۔عبداللہ فادل نے کہا کہ ہمیں فوری طور پر ان فنڈز اور وسائل کی ضرورت ہے تاکہ ہم زندگی بچانے والے طبی آلات، ضروری ادویات، ویکسین، پینے کا صاف پانی، حفظان صحت کی کٹس، مچھر دانیوں کی فراہمی جاری رکھیں۔انہوں نے جنیوا میں بین الاقوامی میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ تنظیم پہلے ہی 20 لاکھ ڈالر مالیت کا ہنگامی سامان فراہم کر چکی ہے۔یونیسیف کے نمائندے نے اسہال، ہیضہ، ڈینگی، ملیریا جیسی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے شدید خطرے سے بھی خبردار کیا جو پہلے ہی متاثرہ علاقوں میں پھیل رہی ہیں۔اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (یو این او سی ایچ اے) نے اپنے تازہ ترین تخمینوں میں کہا کہ عالمی انسانی برادری کا مقصد آئندہ 6 ماہ کے دوران تقریباً 52 لاکھ افراد کی مدد کرنا ہے۔اپنے 2022 پاکستان فلڈ ریسپانس پلان کے تحت یو این او سی ایچ تقریباً 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کی امداد کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کی کوششوں کی تکمیل کرے گا۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب افغانستان میں تباہ کن انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے خوراک پہنچانے کی کوششوں پر بہت زیادہ دبا ڈالے گا۔میڈیارپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا کہ خوراک کی زیادہ تر امداد پاکستان کے راستے سڑک کے ذریعے منتقل ہوتی ہے، ایک ایسا نیٹ ورک جو ملک کی تاریخ کے بدترین سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ڈبلیو ایف پی کے پاکستان کنٹری ڈائریکٹر کرس کائے نے کہا کہ ہم اس وقت پاکستان میں لوگوں کی ضروریات پر پوری توجہ مرکوز کر رہے ہیں لیکن یہاں جو کچھ ہم محسوس کر رہے ہیں اس کے اثرات وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نہ صرف پاکستان میں فوری اور درمیانی مدت میں خوراک کی مجموعی سلامتی کے بارے میں بہت، بہت فکر مند ہو رہے ہیں بلکہ اس کے لیے بھی کہ اس کا افغانستان میں آپریشنز پر کیا اثر پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کو سپلائی کا ایک اہم راستہ فراہم کرتا ہے، اس کی خوراک کی بڑی مقدار کراچی کی بندرگاہ سے داخل ہوتی ہے۔کرس کائے نے دبئی سے ویڈیو لنک کے ذریعے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ بہہ جانے والی سڑکوں کی وجہ سے ہمیں ایک بڑے لاجسٹک چیلنج کا سامنا ہے۔