آئی ایم ایف نے تو گویا ایک لحاظ سے عمران خان کو چارج شیٹ ہی کر دیا ہے۔ اپنی رپورٹ میں اس نے لکھا ہے کہ پاکستان کی موجودہ معاشی مشکلات کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جو خود عمران حکومت نے کیا تھا۔ اس معاہدے کو معطل کرنے کے نتیجے میں کاروبار غیر مستحکم ہوئے۔ ڈالر تیزی سے مہنگا ہوا‘ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے اور مہنگائی میں غیر موزوں اضافہ ہوا۔ غیر موزوں اس طرح کہ مہنگائی نے تو بڑھنا ہی تھا‘ لیکن جتنا بڑھنا چاہئے تھا‘ اس سے کئی گنا بڑھ گئی۔
معاہدے سے روگردانی کی تفصیل پہلے ہی سب کے علم میں ہے۔ فروری میں خان صاحب کو علم ہو گیا تھا کہ ان کی حکومت ختم ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے طے شدہ معاہدے کے برعکس تیل وغیرہ کی قیمتوں میں کمی کر دی اور بجلی پر سرچارج بھی 5 روپے یونٹ کے حساب سے گھٹا دیا۔ ہمارے تاجر مبصرین‘ نے فوری تبصرہ یہ کیا کہ خان صاحب الیکشن میں جانے والے ہیں۔ اس لئے انہوں نے اپنا ووٹ بنک بڑھانے کیلئے یہ تاریخ ساز فیصلہ کیا ہے۔ فیصلہ تاریخ ساز تو تھا‘ لیکن وجہ وہ نہیں تھی جو مبصرین کو سوجھ گئی۔ مطلب وہ اندھیرے میں تھے۔ وجہ یہ تھی کہ خان صاحب نے طے کر لیا تھا کہ تم ہم کو ڈبوئوںگے تو ہم تم کو ڈبو دیںگے۔
صرف یہی نہیں ‘ صاحب امر باالمعروف نے یہ بھی طے کر لیا تھا کہ عدم استحکام کو اس حد تک بڑھانا ہے کہ مہنگائی لوگوں کو مرنے مارنے پر مجبور کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے خان صاحب سے لیکر چھوٹے شیخ جی تک سیانے بیک وقت بیک آہنگ پورے اعتبار سے یہ ’’خبر‘‘ لوگوں تک پہنچانے کی مہم چلا دی کہ خونی انقلاب آنے والا ہے اور ملک سری لنکا بننے والا ہے۔ ان دنوں پی ٹی آئی کے جن اصحاب سے ملاقات ہوئی‘ وہ یہ بتاتے کہ ایسا ہوکر رہے گا۔ کوئی روک نہیں سکتا۔ اس عین الیقین والے اعتماد کے پیچھے پوری سکیم تھی۔ شیخ صاحب نے تو باقاعدہ تاریخ بھی دیدی۔ فرمایا کہ اپریل میں خون کی ندیاں بہتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایسا نہ ہو سکا یعنی رہیں دل میں دل کی حسرتیں‘ کوئی انقلاب آیا نہ ملک سری لنکا بنا۔ الٹا خان صاحب کا فیصلہ کن لانگ مارچ اور دھرنا چند سو درختوں کو آلگ لگا کر گھر کو سدھارا۔ اسلام آباد والے جس ’’عظیم تماشے‘‘ کا خوف کے عالم میں انتظار کر رہے تھے‘ وہ خود ’’تماشا‘‘ بن گیا جس کی داد برنگ بے داد لوگ کئی ہفتے بعد تک دیتے رہے۔ خان صاحب پر توہین عدالت اور مار دھاڑ کے مقدمے بنے۔ وہ تو عدالت کو رحم آیا اور بات رفع دفع ہو گئی۔
…………
آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق حکومت کیلئے بھی سب اچھا نہیں ہے۔ مہنگائی اسی طرح بڑھتی رہی تو اس سال نہ سہی‘ اگلے برس مہنگائی مخالف مظاہروں کی لہر آسکتی ہے۔
ایک مہنگائی تو وہ ہے جوعالمی حالات کا لازمی نتیجہ ہے‘ جس سے مفر ممکن نہیں۔ دوسری مہنگائی وہ ہے جسے بڑھانے کیلئے خان صاحب نے ساڑھے تین سال تک محنت شاقہ کی اور وہ خوب بڑھی اور پھر جاتے جاتے معاہدہ توڑ کر اسے مہمیز مزید دے گئے اور تیسری مہنگائی وہ ہے جو مفتاح اسماعیل کی نظر کرم سے برپا ہو گئی۔ اس تیسری مہنگائی کو ٹالا جا سکتا تھا‘ مثلاً آئی ایم ایف نے بجلی مہنگی کرنے کا ضرور کہا تھا‘ لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ بجلی ستر روپے یونٹ کر دو اور ’’اوور بلنگ‘‘ بھی کرو۔ پٹرول پر لیوی بھی یک بارگی بڑھانے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اب مفتاح اسماعیل نے یہ خوشخبری سنائی ہے کہ وہ زیادہ دیر خدمات انجام شاید نہ دے سکیں۔ اللہ ان کی زبان مبارک کرے۔ شاید ان کی جگہ آنے والے صاحب کچھ صاحب رحم و کرم ہوں۔ مفتاح اسماعیل نے جو بلڈوزر چلائے۔ اس کی وجہ سے ساڑھے تین سال کا بوجھ بھی اس اتحادی حکومت کے کندھوں پر آگیا جس کی مبینہ سربراہی مسلم لیگ ہی کر رہی ہے۔ چھ سات ماہ پہلے تک مسلم لیگ (ن) ملک کی معتدل ترین جماعت تھی۔ آج اس کی مقبولیت سکڑتے سکڑتے کسی بلیک ہول میں جا گھسی ہے۔ لندن میں بیٹھے نوازشریف پریشان ہیں اور پاکستان میں موجود مریم نواز بھی حیران ہیں‘ لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف ’’نتائج‘‘ سے بالکل مطمئن نظر آتے ہیں۔ یہ کیا اسرار ہے بھئی؟
…………
وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پہلے انسان بنیں اور پھر سیاستدان۔
کتنا غلط مشورہ ہے۔ ’’دیوتا‘‘ کو انسان بننے کا مشورہ دینا توہین دیوتائیت ہے۔ عمران خان دیوتا کے منصب پر فائز ہیں۔ صاحب امربالمعروف ہیں۔ برحق نہیں بلکہ بجا کے خود ’’حق‘‘ ہیں۔ قبر میں سب سے پہلے انہی کا نام لیکر گر سوال کیا جائے گا کہ جب تمہاری طرف دیوتا بھیجا تو تم نے اس کی حمایت کی یا نہیں۔ علی محمد خان کے الفاظ میں تمہیں جوانی دی‘ تحریک انصاف پر لٹائی یا نہیں۔
دیوتا لافانی ہوا کرتے ہیں۔ انہیں خالی انسان بننے کا مشورہ دینے پر بلاول بھٹو کے خلاف توہین دیوتائیت کا ازخود نوٹس ہونا چاہئے۔
…………
کل لکھا تھا کہ الخدمت نے 2 ارب روپے امدادی کاموں پر خرچ کئے۔ اس پر ان کے ایک صاحب نے وضاحت کی ہے کہ 2 نہیں‘ کل چھ ارب روپے خرچ کئے جا چکے ہیں اور امریکہ سے احباب جماعت (بھارت‘ بنگلہ دیش اور پاکستانی نژاد) کی تنظیم اکنا نے سوا تین ارب روپے بھیجے ہیں اور وہ بھی خرچ کرنے کا کام شروع ہو گیا ہے۔
تو سوا نو ارب روپے جمع بھی کئے اور خرچ بھی کر ڈالے۔ عمران خان سے کئے جانے والے پانچ ارب روپے کے ’’دعوے‘‘ ہنوز انتظار کی قطار میں لگے ہیں۔
…………
سیلاب سے ہونے والی صورتحال اندیشوں سے زیادہ تشویشناک ہے۔ خبر ہے کہ صرف دس فیصد متاثرہ لوگوں کو مدد دی جا سکی ہے۔ صرف سندھ میں 30 لاکھ مکانات نابود ہو گئے۔ بلوچستان میں تباہی تو اس سے بھی زیادہ ہے۔ متاثرہ لوگ جو سیلاب سے بچ گئے‘ دوسرے حادثات اور بیماری سے مر رہے ہیں۔ عالمی برادری سے مزید مدد کی اپیل کرنا ہوگی۔ مالدارحضرات کو کچھ فراخدلی اور دکھانا ہوگی۔ بستی بسنا کھیل نہیں ہے‘ بستی ہے یہ بستے بستے۔
بلاول او دیوتائیت کی توہین
Sep 04, 2022