وزیر اعظم پاکستان کے نام چند گزارشات

وزیر اعظم پاکستان جناب انوار الحق کاکٹر صاحب مہنگائی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کا اہم مسئلہ بن چکی ہے ۔لیکن جناب عالی قدر! پٹرول،ڈیزل،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافے سے جہاں عام لوگ بہت پریشان ہیں وہیں صنعت کار،کارخانہ دار اور تاجر کہیں زیادہ مشکلات کا شکار ہیں ۔ہم سب جانتے ہیں آج دنیا واقعی گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔ہماری مارکیٹوں میں قانونی اور غیر قانونی ہر دو رستوں سے دنیا بھر کا مال فروخت ہونے کے لیے دستیاب ہے ۔کسی دور میں غیر ملکی مال کی کھپت اس کی اعلی کوالٹی یا ملک میں عدم دستیابی کی وجہ سے ممکن ہوا کرتی تھی لیکن پچھلے دو تین عشروں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جیسے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غیر ملکی اشیا ضروریہ کوملکی مارکیٹوں تک رسائی دی جارہی ہے ۔ایسا کرنے والے ،ایسے کسی بھی عمل کا حصہ بننے والے جانے انجانے میں ملکی صنعت کاروں کے لیے پریشانی کا سبب بن رہے ہیں ۔بغیر کسٹم ڈیوٹی ادا کیے ملک میں آنے والے چیزیں ملکی معیشت کو کمزور کرنے کی وجہ بن رہے ہیں۔جناب عالی آپ کا چند دن پہلے ایک بیان نظروں کے سامنے سے گزرا کہ ملک میں سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت بے یقینی اور مایوسی پھیلائی جارہی ہے ۔تو عرض ہے کہ جب عوام دیکھتی ہے کہ ان کے سیاست دان اور دوسرے اعلی عہداران پہلے پر کشش مراعات حاصل کرتے ہیں پھر اپنی دولت دوسرے ملکوں کو منتقل کیے جارہے ہیں۔تو پھر عوام کیا کرے ؟کہاں جائے؟بے چین ہونے کا حق تو ان کے پاس رہنا دیجیے نا!آپ نے یہ بھی کہا کہ غریب طبقے کا خون چوسنے نہیں آئے۔آپ کے یہ بیانات بہت خوش کن ہیں لیکن ان کی اہمیت تب ہی ہے جب آپ عملی طور پر عام پاکستانی کی فلاح کے لیے کچھ ایسا کردکھائیں کہ لوگ خوشی سے جھومنے لگیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگیں۔یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ کو ملکی معشت کو کمزور کرنے کے بہت سے اسباب کا پتہ ہے ۔جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ پاکستان کی معاشی مشکلات کی ایک بڑی وجہ اسمگلنگ ،ٹیکس چوری اور ڈالر کی بڑھتی قیمت ہے ۔اسمگلنگ بہت بڑا مسئلہ ہے ۔اگر اسمگلنگ پر قابو پا لیا جائے تو قانونی طریقے سے درآمد ہونے والی اشیا سے پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر کا فائدہ ہو سکتا ہے ۔آپ کو تخت نشین ہوئے گو کہ کچھ ہفتے ہی ہوئے ہیںلیکن سیاست سے آپ کا تعلق زمانہ طالب علی سے معلوم ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایک محب وطن راہنما اور درد دل رکھنے والے پاکستانی ہیں ۔لیکن جس منصب کے لیے آپ کو چنا گیا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ آپ عوام کے جذبات و احساسات اور مسائل سے نہ صرف بخوبی آگاہ ہوں بلکہ انہیں حل کرنے کے لیے ریاستی وسائل کو بھی درست استعمال کرنے کی کوشش کرتے دکھائی ہیں ۔جناب والا!آج سوشل میڈیا کا دور ہے کسی بھی انسان کے کہے لفظ چند ہی منٹوں میں دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں ۔مہنگائی کے حوالے سے آپ کے ایک دو بیانات کے بعد عوامی میں بے چینی کی فضا بنی ہوئی ہے تو یہی بیانات بہت سے یوٹیوبرز کے لیے کمائی کا بڑا زریعہ بن رہے ہیں ۔
جناب عالی قدر!آپ مختصر وقت کے لیے ہی سہی لیکن کچھ محبت وطن لوگوں کو ساتھ ملا کے ایک تھنک ٹینک بنانے کی کوشش کیجیے کہ آنے والے بیس سالوں میں کیسے ملکی معیشت کو مضبوط کرنا ہے ۔کیسے ہر مظلوم کو انصاف مل سکے گا ۔کیسے لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روز گار ملے گا ۔کیسے ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو عروج حاصل ہوگا ۔کیسے سرمایہ دار طبقے کے لوگ اپنی دولت کو ملک میں محفوظ سمجھتے ہوئے نئے کارخانے اورفیکٹریاں لگائیں گے۔کیسے دکاندار،سرمایہ دار،صنعت کار،ٹرانسپورٹر،ہاوسنگ سوسائٹیز والے، مزدور اور وقتی مزدوی یا نوکری کرنے والا طبقہ بخوشی اپنی آمدنی سے ریاست کو ہر مہینے کچھ رقم ادا کرے گا ۔جناب عالی ایک مہم چلائی جاسکتی ہے ’میڈ ان پاکستان‘ اشیا خرید جائیں تا کہ ڈالر ادا کر کے باہر سے مال نہ منگوانا پڑے۔وزیر اعظم صاحب یہ منصب جہاں ایک طرف بڑی عزت کی وجہ ہے وہیں اس منصب کی وجہ سے آپ کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں بھی آپڑی ہیں ۔کچھ ایسا کرنے کی کوشش کیجیے کہ آپ کے لوگ عزت سے ملک میں جینے کے قابل ہوسکیں ۔جب ہر پاکستانی کا نادرہ میں ریکارڈ درج ہوتا ہے تو پھر ایک قانون بنا دیا جانا چاہیے کہ ہر نوجوان جب اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچے تو ریاست کو معلوم ہو کہ وہ روز گار کے لیے کیا کررہا ہے ۔ایک ریڑھی والا ،محلے کا دکاندار،ٹیوشن پڑھانے والا،رکشہ چلانے والا،دکان پر کام کرنے والا ،کارخانے یا فیکٹری میں کام کرنیوالا ،راج مستری ،پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں خدمات فراہم کرنے والا ،پراپرٹی کا کا م کرنے والا الغرض ہر بندہ جو بھی کام کرے اس کا ریاست کو معلوم ہونا بہت ضروری ہے ۔پھر کام شروع کرنے کے کم از کم چھ مہینے بعد ہر شہری جو روز گار سے منسلک ہو چکا ہو وہ ریاست کو اپنی آمدن سے تین چار فیصد رقم اد ا کرنے کا پابند ہو۔ اس کے بعد ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے شہریوں پر ناجائز ٹیکس نہ لگائے جائیں ۔نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے لیے فنون لطیفہ کو عام کرنے کی کوشش کیجیے۔ادبی محافل،چائے خانے اور مکالمے کی فضا بنا کے لوگوں کے دلوں سے مایوسی اور بے چینی دور کی جاسکتی ہے ۔

ای پیپر دی نیشن