7 ستمبریوم تحفظ ختم نبوت '' عشق رحمت کل عالم?''

 حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com

کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحہ? کی حرمت پہ
خدا شاہد ہے میرا ایماں کامل ہو نہیں سکتا…!!
شاعر مشرق حضرت اقبال اورمولانا ظفر علی خان کے مذکورہ بالا شعر محبت'  عشق' مودوت اور وابستگی کی ایسی ریشمی دوڑی میں بند ھے ہوئے ہیں جس سے اعجازو اعزاز' کمال اور بلندی کا سفر جاری رہتا ہے۔ ہر دم' ہر لمحہ اور ہر ساعت درود و سلام اس نبی محتشم  پہ ہے جنہوں نے ہر موقع اور ہرگام یہ اپنی امت کو فراموش نہں کیااور سیلوٹ ہے ان گرامی قدر صاحبان عشق پر جنہوں نے حرمت نبی مکرم? کی حفاظت میں جان تک کی پرواہ نہیں کی۔ ایسے قابل فخر سپوتوں کے نام آج بھی زندہ و جاوید ہیں اور صبح قیامت تک ان کی یادوں کے چراغ روشن رہیں گے۔ 1900 کے اوائل کے حالات پر نظر ڈالیں گستاخ راج پال کو واصل جہنم کرنے والے غازی علم الدین شہیدکو کون بھول سکتا ہے؟ ہم کل بھی غازی علم الدین کی عظمت وحشمت کو سلام پیش کرتے تھے آج بھی ہم اسے کے ذکر سے دلوں کو نیرومنزہ کرتے ہیں۔
7 ستمبر… یہ روز سعید ہے مسلمانوں کے لیے کیونکہ اس روز قومی اسمبلی نے تاریخ ساز قرارداد( بل) منظور کرکے قادیانیت کے فتنے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بوتل میں میں بند کر دیا، یوں پاکستانی قانون کے مطابق قادیانی (احمدی) غیر مسلم قرار پائے۔ ہم وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو' وزیر خارجہ یحیی بختیار ' علامہ شاہ احمد نورانی جناب مفتی محمود احمد اور پروفیسر غفور سمیت اکابرین کے لیے جھولی پھیلا پھیلا کر دعائیں  کرتے ہیں جنہوں نے 7 ستمبر 1974ئ￿  کو ردقادنیت کے لیے تاریخی قرارداد منظور کروائی۔ اگست اور ستمبر میں پارلیمان اور عدالت عظمی کے ساتھ عوامی فورمز پر قادیانیت کے خلاف' بل  تقاریر اور عوامی بحث کا موضوع رہا۔ اس ساری کارروائی اور حالات کے عینی شاید  چچاجان سعود ساحر (وفات 3 نومبر 2021) تھے جنہوں نے قرارداد (بل )کے پس منظر اور پیش منظر کو کتابی صورت میں قلم بند کرکے اپنا اور اپنے خاندان کا نام امر کرلیا۔ میرے والد مکرم حکیم سرورسہارنپوری ( وفات 2 اگست 2012) کا موضوع گفتگو بھی سیرت النبی? رہا وہ اٹھتے بیٹھتے ' سوئے جاگتے اسی مبارک موضوع پر نوجوانوں سے مخاطب ہوتے!!
آج غیر مسلم طاقتیں اسی مسلم نوجوان کو ہدف بناتے ہوئے ہیں ان کا خیال اور وہم ہے کہ نوجوانوں کے دل سے حب رسول? کی دولت چھین لو  یوتھ اسلام سے دور ہو جائی گی، صبح قیامت تک سامراج اسی بھول اور خوش فہمی میں رہے گا۔محترم سعود ساحر نے تحریک ختم نبوت (آغاز سے کامیابی تک) ترتیب دے کر اور شائع کروا کر اہل عشق میں اپنا نام لکھوا لیا ،بلاشبہ یہ کتاب حکمت و بلاغت وہ سرمایہ ہے جس پر اعجاز وافتخار کی کئی مینار تعمیر کئے جاسکتے ہیں۔کتاب کا دوسرا  ایڈیشن ہماری کوششوں سے سامنے آیا، ہم وفاقی وزیر مذہبی امور  انیق احمد چیئرمین رحمۃ لعالمین اتھارٹی خورشید ندیم اور چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز سے ملتمس ہیں کہ وہ اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ افراد تک پہنچانے کے لیے انقلاب آفریں قدم اٹھائیں یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور تقاضائے عشق بھی!!…گراں قدر تحقیقی تصنیف کی بابت ڈاکٹر حافظ محمد ثانی کا کہنا تھا کہ مذکورہ کتاب پاک و ہند میں تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے علمی تصنیفی خدمات میں عمدہ اضافہ اور تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ در حقیقت فاضل مصنف سعود ساحر کی ختم نبوت کے حوالے سے یادداشتوں پر مشتمل وہ کتاب ہے، جسے قلم بند کرنے کی تحریک اور مہمیز دینے میں نائب امیر مجلس احرار اسلام پاکستان علامہ سید کفیل بخاری اور محترم عبداللطیف خالد چیمہ ( سیکریٹری جنرل مجلس احرار  ) کا بنیادی کردار ہے۔ سعود ساحر مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تحاریک تحفظ ختم نبوت1953.1974اور1984  کی دینی، سیاسی وملی تاریخ کے عینی شاہدین میں سے ہیں۔ تحریک ختم نبوت آغاز سے کامیابی تک کے مضامین اخبارات میں قسط وار شائع ہو کر علمی، دینی و مذہبی طبقے میں بے حد مقبول ہوئے۔ یہ ضرورت پوری شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے اس تاریخی دستاویز کو یکجا کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔بنیادی طور پر یہ کتاب تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے تاریخ ساز تحریک 1974  کی علمی اور تاریخی دستاویز ہے. گو کہ متعلقہ موضوع پر متعدد کتب شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں ، تاہم پیش نظر کتاب اپنے موضوع پر ایک منفرد، جامع اور تاریخی دستاویز کے طور پر یا درکھی جائے گی۔ کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں فاضل مصنف نے 1974 کی قومی اسمبلی میں ہونے والی پوری بحث کو تاریخی طور پر قلم بند کر کے ہر فریق کے مکمل دلائل اور بحث کو بھی کتاب کا حصہ بنا دیا ہے جس کی افادیت پورے طور پر مسلم ہے۔  7ستمبر 1974 ہماری ملکی وملتی تاریخ کا وہ سنگ میل ہے، جب قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا یوںبرصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی طویل اور ایک صدی پر محیط جد و جہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
٭… آئینی ترمیم کا مسودہ 
وفاقی وزیر قانون حفیظ پیرزادہ نے قومی اسمبلی کے ایوان میں آئینی ترمیم کا مسودہ پیش کیا، جس کے تحت آئین کی دفعہ 106 اور 260 میں ترمیم جو متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔آئین پاکستان میں ترمیم کابل ہرگاہ یہ قرین مصلحت ہے کہ بعد ازیں درج اغراض کے لیے اسلامی جمہور ہے۔پاکستان کے آئین میں مزید ترمیم کی جائے۔لہذا بذریعہ( بل) حسب ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے۔1? مختصر عنوان اور آغا ز نفاذ(1) یہ ایکٹ آئین ( ترمیم دو ) ایکٹ 1974 کہلائے گا(2) یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا۔2? آئین کی دفعہ 106 میں ترمیم۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں، جسے بعد ازیں آئین کہا جائے گا، دفعہ 106 کی شق (3) میں لفظ فرقوں کے بعد الفاظ اور قوسین اور قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کے اشخاص ( جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں ) درج کئے جائیں گے3? آئین کی دفعہ 260 میں ترمیم۔آئین کی دفعہ 260 میں شق ( 2 کے بعد حسب ذیل نئی شق درج کی جائے گی)یعنی (3) جو شخص حضرت محمد? جو آخری نبی ہیں آپ?کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا حضرت محمد? کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے، وہ آئین پا قانون کے اعراض کے لیے مسلمان نہیں ہے ''اشیائ￿   اور چہرے''جیسا کہ تمام ایوان کی خصوصی کمیٹی کی سفارش کے مطابق قومی اسمبلی میں طے پایا ہے کہ اس بل کا مقصد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں اس طرح ترمیم کرتا ہے کہ ہر وہ شخص جو حضرت محمد ?کے خاتم النبیین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد? کے بعد نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا جو کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے اسے غیر مسلم قرار دیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن