مثالی معلم اور قابل فخر عالم کی ضرورت

ٹی ٹاک …طلعت عباس خان
 ایڈووکیٹ سپریم کورٹ 
takhan_column@hotmail.com 
کہا جاتا ہے کہ کسی روز ایک عالم اپنے شاگرد کے ساتھ کھیتوں سے گزر رہے تھے۔چلتے چلتے ایک پگڈنڈی پر ایک بوسیدہ جوتا دکھائی دیا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ کسی بڑے صاحب کا ہے۔ قریب  کسی کھیت کھلیان میں محنت کش مزدوری سے فراغت ہو کر اسے پہن کر گھر کی راہ لیں گے۔ شاگرد نے پوچھا؛ حضور! کیسا رہے گا کہ تھوڑی دل لگی کرتے ہیں۔ جوتا ادھر ادھر کر کے خود بھی چھپ جاتے ہیں۔ وہ بزرگوار آ کر جوتا  غائب پائیں گے تو ان کا ردِ عمل قابل دید ہو گا۔کامل استاد نے کہا؛ بیٹا اپنی خوشیاں دوسروں کی پریشانیوں سے وابستہ کرنا کسی طور بھی پسندیدہ عمل نہیں۔  تم پر رب کے احسانات ہیں ایسی قبیح حرکت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے رب کی نعمت سے خوشیاں اور سعادتیں سمیٹ سکتے ہو اپنے لئے بھی اور اس بیچارے مزدور کے لئے بھی۔ فرمایا ایسا کرو کہ جیب سے چند سکے نکالو اور دونوں جوتوں میں انہیں رکھ دو پھر ہم چھپ کے وہ دیکھیں گے جو ہو گا؟ بلند بخت شاگرد نے تعمیل کی اور استاد و شاگرد دونوں جھاڑیوں کے پیچھے دبک گئے۔
 کام ختم ہوا، بڑے میاں نے آ کر جوتے میں پاؤں رکھا تو سکے جو پاؤں سے ٹکرائے تو ایک ہڑبڑاہٹ کے ساتھ جوتا اتارا تو وہ سکے اس میں سے باہر آ گئے۔ ایک عجیب سی سرشاری اور جلدی میں دوسرے جوتے کو پلٹا تو اس میں سے سکے کھنکتے باہر آ گئے۔ اب بڑے میاں آنکھوں کو ملتے ہیں، دائیں بائیں نظریں گھماتے ہیں۔ یقین ہو جاتا ہے کہ خواب نہیں، تو آنکھیں  تشکر کے آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔ بڑے میاں سجدے میں گر جاتے ہیں۔ استاد و شاگرد دونوں سنتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے کچھ یوں مناجات کر رہے ہیں۔میرے مولا! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں، تو میرا کتنا کریم رب ہے۔ تجھے پتہ تھا کہ میری بیوی بیمار ہے، بچے بھی بھوکے ہیں، مزدوری بھی مندی جا رہی ہے ۔ تو نے کیسے میری مدد فرمائی۔ ان پیسوں سے بیمار بیوی کا علاج بھی ہو جائے گا، کچھ دنوں کا راشن بھی آ جائے گا۔ ادھر وہ اسی گریہ و زاری کے ساتھ اپنے رب سے محومناجات  تھے اور دوسری طرف استاد و شاگرد دونوں کے ملے جلے جذبات اور ان کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ کچھ دیر کے بعد شاگرد نے دست بوسی کرتے ہوئے عرض کیا؛ استاد محترم! آپ کا آج کا سبق میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔ آپ نے مجھے مقصدِ زندگی اور اصل خوشیاں سمیٹنے کا ڈھنگ بتا دیا ہے۔ استاد نے موقعِ مناسب جانتے ہوئے بات بڑھائی، بیٹا! صرف پیسے دینا ہی عطا نہیں بلکہ باوجود قدرت کے کسی کو معاف کرنا  بھی نعمت  و نیکی ہے۔ مسلمان بھائی بہن کے لئے غائبانہ دعا بھی نعمت ہے۔  مسلمان بھائی بہن کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت بھی نیکی ہے۔رنگ نسل ذات اورمذہب سے ہٹ کر احترام انسانیت کرنا عطاء ہے۔ یہ سچ ہے موجودہ حالات میں عالم استاتذہ کی کمی کو شدید سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ جس سے معاشرے، میں بگاڑ نمایاں ہے۔بجلی کے بلوں پر کل تک قوم سراپا احتجاج تھی  صبح اٹھے تو پٹرول کا بم گرا چکے تھے۔ ایسا کر کے بتا دیا کہ ہم بے بس ہیں قوم کو ریلف نہیں دے سکتے اور نہ ہی ریلیف دینے آئیں ہیں ۔ یہ بھی بتا دیا کہ ہم وہی کچھ کریں گے جو ہمیں لانے والے کہیں گے! ہم تو نوکری پیشہ لوگ ہیں۔ ہم اپنی نوکری کیلئے ہمیشہ اپنے مالک کو خوش رکھیں گے ۔لہذا یہ بھی وہی کچھ کررہے ہیں جو ایک نوکری پیشہ کرتا چلا آیا ہے۔جبکہ دوسری طرف ہم انسان اپنے مالک کے ناشکرے ہیں ہم اس کا کہنا نہیں مانتے۔ ہم اس کے ساتھ ہوشیار یاں کرتیہیں۔ گھر والوں اور سماج کو بتانے کیلیے کہ میں نیک ہوں اور سنت چہرے پر سجالیتے ہیں لیکن اپنے مفادات کی خاطر نہ اپنے نبی کی سنت کا خیال رکھتے ہیں نہ اپنے والدین سماج اور نہ بیوی بچوں کا خیال کرتے ہیں ایک ملازمہ کے کہنے پر چہرہ صاف کر دیتے ہیں ایسے لوگ کامیابی تو حاصل کر لیتے ہیں مگر ان کا چہرے پر  لعنت برستی ہے،انہیں دیکھ کر گھن آتی ہے۔ وہ بات بات پر دوسروں پر الزام تراشی کرتا ہے دراصل اس وقت وہ اپنی لگائی گئی آگ میں خود جل رہا ہوتا ہے ۔ یاد رہے جس نے سنت نبیؐ کو عزت نہ دی ہووہ دوسروں کو کیا خاک عزت دے گا۔بس بچو ایسے پہروپیوں سے جو نبیوں کے نام رکھ کر مزہب کو استعمال کر کے کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کرتے ہیں کم تولتے ہیں۔اپنا اور بزنس کا نام رکھتے ہیں یہ اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ ان کی زندگیوں میں انہیں اچھا عالم استاد نہیں ملا ہوتا۔ اچھی تربیت گاہ سے محروم رہا ہوتا ہے۔آجکل ہم مہنگائی سے دو چار اور پریشان حال ہیں۔یہ سب ہمارے برے اعمال اور برے  اعمال کا نتیجہ ہے۔لگتا یہی ہے کہ برے کرتوتوں کی سزا  اللہ کریم دے رہا ہے ہم پہ مہنگائی کا عذاب ہے توبہ کریں اور سدھر جائیںاگر ہم سدھریں گے نہیں تو بہتری ممکن نہیں۔

ای پیپر دی نیشن