ہم پاکستانی آخر انسانوں کی کونسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک طرف کسی کے بھی ذرا سا اکسانے پر اس قدر مشتعل کہ دماغ کی بتی بجھائی اور فورا تباہی بربادی پر آمادہ اور مرنے مارنے پر اتر آئے اور دوسری طرف بڑے سے بڑا سانحہ اور روح فرسا واقعہ بھی ہماری حس احساس کو جگانے میں ناکام رہتا ہے اور بظاہر مبہم مگر مجرب اور آشکارا حالات بھی ہمیں تدبر و تعقل کی طرف مائل نہیں کرتے ۔ کچھ مہینے پہلے جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر میں منعقدہ ایک نجی تقریب میں شرکت کی غرض سے جانا ہوا- وہاں جا کر شدیر حیرت اور تشویش ہوئی کہ آنے والی مہمان خواتین میں سے زیادہ تر کے ساتھ ایک کم عمر ملازمہ تھی جس کا کام وہاں بچوں کو سنبھالنا تھا ۔ میزبان سے استفسار پر معلوم ہوا کہ ان میں سے اکثر یت بچوں کے والدین یا دونوں میں ایک اسی خاندان کے ہاں ملازم ہیں ۔ وہ لوگ غریب ہیں اور دس بارہ کے خاندان کی صرف روٹی کا بندوبست کرنا ہی مشکل کام ہے اور یہاں ان بچوں کی ضروریات کا بہت بہترین انداز میں خیال رکھا جاتا ہے اور وہ اس کے بدلے وہ کچھ ہاتھ بٹا دیتے ہیں ۔ اس عمر میں ملازمت کے بوجھ کے علاوہ بچوں کی ظاہری حالت ٹھیک ٹھاک ہی تھی اس لیے بس ہلکے پھلکے انداز میں اتنا کہہ پائی کہ بچوں کو ان کے اپنے گھر رکھ کر بھی یہ امداد کی جاسکتی ہے تاکہ کم از کم بچے سکول تو جائیں دل کو تسلی دی کہ تعلیم کی کمی اور موثر آگاہی کے فقدان سے یہ صورتحال ہے ۔ مگر جس بات نے پریشان کیا وہ کل اسلام آباد کے ایک پوش سیکٹر کے مرکز میں آنکھوں دیکھا حال ہے جہاں
ایک خاتون آصفہ نامی بچی پرجو ان کی ملازمہ تھی سخت برہم تھیں ۔سڑک کے دوسری جانب ہونے کی وجہ سے کافی غور سے سننے پر معلوم ہوا کہ اس قدر سیخ پا ہونے کی وجہ مالکن کے بچے کے جوس سے سپ لیتے ہوئے پکڑا جانا تھا ۔میری توجہ اپنی طرف دیکھ کر بچوں کو فورا گاڑی میں ڈالا اور چلی گئی یعنی وہ ملازم بچی اس گرمی میں جوس کی حق دار بھی نہیں تھی ۔ اگر کچھ مہینے پہلے ایسا ہوا ہوتا تو شائد اتنا غور طلب اور تکلیف دہ نہ ہوتا مگر آجکل جب کہ سوشل میڈیا اور ٹیلی وڑن پر روزانہ کے حساب سے گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کی ویڈیوز اور رپورٹ پیش کی جار ہی ہیں رانی پور کی مظلوم فاطمہ کی دردناک داستان ہو یا بے بسی کی تصویر رضوانہ کا مسئلہ ہو یا مختلف فوڈ کورٹس کے مناظر جہاں امتیازی سلوک کو واضح دیکھا جاسکتا ہے سوشل میڈیا کے زریعے تقریبا سب ان واقعات سے آگاہ ہیں اور اندازہ بھی ہے کہ کوئی بھی اس سے متعلقہ حرکت فورا توجہ کا باعث بنے گی لیکن دیدہ دلیری اور بے خوفی کی انتہا ہے اور روزانہ کے حساب سے ایسے نئے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں ۔ فقر اور تنگ دستی تمام اصول و ضوابط اور اخلاقی معیارات چھین لیتی ہے مگر بظاہر تعلیم یافتہ اور معاشی طور مستحکم افراد کے ایسے رویے بحثیت قوم ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہیں ۔یونیسیف کے مطابق 2012میں بطور ملازم کام کرنے والے بچوں کی تعداد ایک کروڑ تھی جس میں اب بیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے ۔اگر پاکستان میں پیدا ہونے والے صرف %35بچوں کا پیدائش کے وقت قومی سطح پر اندراج کیا جاتا ہے تو ان اعدادوشمار کا اکٹھا کرنا کہ کتنے بچے چائلڈ لیبر کاشکار ہیں اور پھر ان میں گھریلو ملازمین کی تعداد کتنی ہے فی الحال نا ممکن ہی نظر آتا ہے ۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی 2004 کی رپورٹ کے مطابق دو لاکھ چونسٹھ ہزار بچے گھریلو ملازم ہیں جن میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے اور ان کی عمریں دس سے پندرہ سال کے درمیان ہیں ۔حالیہ واقعات سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ سیاست دان ہوں سر کاری افسران یا نام نہاد اشرافیہ بہت سارے کہیں نہ کہیں یہ پریکٹس کرتے رہے ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چائلڈ لیبر یا گھریلو مددگار بچوں کے لیے کوئی قانون نہیں جو دھڑلے سے یہ سب کچھ جاری و ساری ہے تو دیگر بہت سے مسائل کی طرح اس معاملے میں بھی کچھ قوانین تو موجود ہیں مگران کا نفاذ نہیں ہو پا رہا ۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 11.3چودہ سال سے کم عمر بچوں کو ملازمت دینے سے منع کرتا ہے مگر اس کا اطلاق گھریلو ملازمین پر نہیں ہوتا اس لیے اکثریت بچوں کی گھریلو ملازمت کو چائلڈ لیبر میں شمار نہیں کرتے اسی لیے وہاں ہونے والے تشدد غلامی جیسی صورتحال جسمانی اور جنسی استحصال کے بیشتر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے ۔خیبر پختون خواہ نے چائلڈ لیبر پالیسی 2021میں ایسے قوانین بنائے جس میں بچوں کی ملازمت پر پابندی اور سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم مفت ہے ۔اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹری (ICT) نے حال ہی میں گھریلو مزدوری کو ایک خطرناک پیشے کے طور پر تسلیم کیا ہے مگر ان سب قوانین کا فائدہ تب ہی ہو گا جب ان کے نفاذ کو موثر بنایا جائے ۔
عوام الناس میں بیداری اور آگاہی پیدا کرنا اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو متحرک اور منظم کرنا بے حد ضروری ہے اساتذہ ، میڈیا ،مذہبی رہنما ، سوشل ورکر اور عام صاحب فکر انسان مل کر معاملے کی حساسیت اجاگر کرنے اور اس کی روک تھام کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں اور ساتھ ہی تمام اسٹیک ہولڈرز جیسے سرکاری ایجینسیوں ، این جی اوز مقامی اور بین الا قوامی تنظیموں کی کاوشوں کو مربوط اور منظم کرنا بھی بے حد ضروری ہے ۔میں اور مجھ جیسے بہت سے لوگ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی طرف سے پیش کردہ تجویز کی مکمل حمایت کرتے ہیں کہ کم عمر بچوں کو گھریلو ملازم رکھنے کو جرم قرار دیا جائے کیونکہ سخت قوانین اور ان اطلاق ہی اب واحد حل ہے ۔بقول شارب مورانوی
ظلم کرتے ہوئے وہ شخص لرزتا ہی نہیں
جیسے قہار کے معنی وہ سمجھتا ہی نہیں