بدھ‘ 28 صفر المظفر1446ھ ‘ 4 ستمبر 2024

پاکستان میں 80 فیصد لوگ شادی شدہ ہیں ‘ گھر والوں کی پسند سے شادی کی۔ 
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ جو لوگ خود کو کنوارہ یعنی ان میریڈ ظاہر کرتے ہیں‘ یہ سب نوسرباز اور دونمبر ہیں۔ جو صنف مخالف کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور جو خواتین بھی غیرشادی شدہ ہونےکا ڈرامہ رچائے ہوئے ہیں‘ وہ اولاد آدم کو دھوکہ دے رہی ہیں۔ سب جگہ اسی دھوکہ دہی کو محبت کا‘ چاہت کا‘ عشق کا نام دیکر بدنام کیا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں 80 فیصد مرد و خواتین جن کی عمریں 25یا 30 سال کے لگ بھگ ہیں‘ شادی شدہ ہیں وہ بھی ارینجڈ میرج کر چکی ہیں۔ یعنی والدین کی مرضی سے گھر آباد کیئے جا چکے ہیں تو اب کیا وہ کنوارے ہونے کا ڈرامہ رچا کر من پسند شادی جسے لو میرج کہتے ہیں‘ کیلئے پر تول رہے ہیں‘ یہ بہت غلط بات ہے۔ ایسی ہی حرکتوں کی وجہ سے معاشرے میں بے چینی اور گھرگھر میں انتشار پھیلا نظر آتا ہے۔ ایک عوامی سروے کے مطابق اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد امید ہے‘ میرا جانو میرا شونو، میرا بابو کہہ کر خود بے وقوف بننے اور دوسروں کو بنانے والے ان ڈرامہ بازوں پر اب اعتبار کوئی نہیں کرے گا۔ ورنہ خود ہی دیکھ لیں ہمارے خطے میں ہی ہیر رانجھا‘ سوہنی مہینوال‘ سسی پنوں‘ مرزا صا حباں کی کہانیاں موجود ہیں۔ سب بے موت مارے گئے۔ کسی کو کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ کوئی قتل ہوا‘ کوئی ڈوب مرا‘ کوئی خودکشی کر بیٹھا۔ کوئی صحرا میں بلک بلک کر مر گیا۔ حالانکہ وہ کہانیوں کے مطابق سچے عاشق تھے۔ تو اب ایسی باتیں کرنے والے ذرا اس حقیقت پر بھی غور کریں اور اپنے ساتھ دوسروں کی زندگیاں بھی برباد نہ کریں ورنہ صرف دل پشوری کرنے اور ٹائم پاس کرنے کا شوق ہے تو وہ الگ بات ہے۔ اس۔ اس رپورٹ کے بعد کنوارے کہلانے کے شوقین شادی شدہ مرد و خواتین کی کافی دل شکنی ہوئی ہوگی کہ انکی اکثریت نے ماں باپ کے کہنے پر سر تسلیم خم کیا۔ مگر ابھی تک پیار و محبت کے نام پر دل پشوری کرنے کی تمنا انکے دلوں میں مچل رہی ہے۔ 
میں سادہ انسان‘ سیدھی اور صحیح بات کرتا ہوں‘ عوام نے ہمیشہ بدی کا ساتھ دیا‘ طاہر القادری۔
مولانا طاہر القادری کا یہ بیان سن کر تو ہمیں بے اختیار اردو کا ایک محاورہ ”جلیبی کی طرح سیدھا“ یاد آگیا۔ جتنا مولانا سیدھے ہیں‘ اتنی تو جلیبی ہی ہوتی ہے۔ رہی بات سادگی کی تو وہ انکے شاندار پرتعیش لائف سٹال کے پیچھے کہیں چھپی ہوگی۔ کیونکہ وہ لاکھوں کا لباس‘ جوتے‘ عالی شان گھروں اور گاڑیوں کے ساتھ ملک و بیرون ملک رہتے ہیں‘ خوراک بھی انکی خالص ترین ہوگی جس طرح وہ مصفی منرل واٹر پیتے ہیں۔ خدا ایسی سادگی اور سیدھی طبیعت سب پاکستانیوں کو بھی نصیب فرمائے۔ اب تو گاہے بگاہے مولانا کا بھاشن ویڈیو پر ہی دیکھا و سنا جاتا ہے کیونکہ جب سے وہ کینیڈا پدھارے ہیں‘ وطن عزیز کو پلٹ کر نہیں دیکھا کہ وہاں کیا حال ہے۔ ماڈل ٹاﺅن کے ہلاک شدگان کے ورثاءکس حال میں ہیں‘ کینیڈا میں بھی ان کا طرز حیات اور بچوں کی شادی کی ویڈیوز دیکھیں سادگی کا جنازہ نکلتا ہوا خود محسوس ہوگا۔ اب چونکہ انکی سچائی اور سچی باتوں پر بھی لوگوں کا اعتماد نہیں ہے تو اسکے ذمہ دار بھی وہ خود ہیں۔ انہوں نے خوابوں اور بشارتوں کا ایک ایسا ماحول بنایا کہ سادہ لوح مریدین نے انہیں پیر و مرشد بنالیا۔ مگر جب وہ سب باتیں اور خواب غلط نکلے تو مولانا کی سچی باتوں پر کسی کو اعتبار نہیں آیا۔ اب وہ اپنا غصہ اس طرح نکال رہے ہیں کہ پاکستانی قوم کی تذلیل ہو رہی ہے۔ کہتے ہیں قوم نے ہمیشہ بدی کا ساتھ دیا۔ کیا انہیں غارحرا لے کر جانے والے فرشتے اور جس کو انہوں نے اپنا چھوٹا بھائی کہا اور انکے ساتھ شریکِ دھرنا رہے‘ کیا وہ بھی بدی کی سیاست کے نمائندے تھے۔ تو آپ انکے ساتھ کیوں رہے۔ انکی حمایت کیوں کی؟ سچ تو یہ ہے پاکستانی قوم نے وہی راہ اپنائی جو انہیں آپ جیسے رہنماﺅں نے دکھائی ہے کہ جہاں فائدہ ہو وہاں چلو۔ سو اب بھی آپ کا احترام ہے مگر سیاسی نہیں‘ مذہبی بنیادوں پر۔ عالمِ دین کے طور پر۔ رہی بات سیاست کی تو اس کا ذکر چھوڑیں۔ کیونکہ بہت سی باتیں طشت ازبام نہیں کی جاتیں اس لئے عوام کو سیدھی سچی اور سادہ سیاست سمجھانے کیلئے انہیں اگر فرصت ملے تو وطن آکر سب کو سمجھائیں۔ شاید لوگ سمجھ جائیں۔ اور انکی سادگی‘ سچائی اور بھولے پن کو تسلیم کرلیں۔ 
 سبزیوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی ہے‘ ضلعی انتظامیہ کی رپوٹ۔ 
خدا جانے یہ فرضی اعداد و شمار ضلعی انتظامیہ کہاں سے حاصل کرتی ہے۔ اگر تو یہ سرکاری نرح نامہ دیکھ کر حاصل ہوتی ہے تو جان لیں یہ سراسر دروغ گوئی ہے۔ سبزی منڈیوں اور سبزی کی دکانوں کے ریٹ دیکھیں تو ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ عام سبزی جو لوگ شوق سے کھاتے ہی نہیں ‘ مثال کے طور پر گوبھی‘ بینگن وغیرہ وہ بھی اس وقت 200 روپے کلو سے کم کہیں دستیاب نہیں۔ لہسن ادرک‘ ٹماٹر‘ پیاز کی تو بات چھوڑیں۔ یہ تو روز کا رونا ہے۔ صرف دفتر میں بیٹھ کر سنی سنائی بات پر یقین کرکے ریٹ کم ہونے کا بیان جاری کرکے ضلعی انتظامیہ عوام کو بےو قوف نہیں بنا رہی، دراصل اپنی کارکردگی کا مذاق اڑا رہی ہے۔ لوگ ایسی حماقتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ ویسے بھی ضلعی انتظامیہ کا زور چلتا ہی کہاں ہے‘ وہ تو کہیں نظر بھی نہیں آتی۔ ہاں البتہ روزانہ کا خرچہ پانی لینے کیلئے اسکے ہرکارے خود مقررہ وقت پر آن دھمکتے ہیں اور اسکے بعد سب اچھا کی رپورٹ جاری ہوتی ہے۔ جیسا کہ یہ جعلی رپورٹ ضلعی انتظامیہ نے جاری کی ہے۔ اگر ان میں کوئی رزق حلال کمانے والا بازاروں اور منڈیوں میں جاکے دیکھے تو معلوم ہوگا کہ باسی سبزیاں بھی سونے کے بھاﺅ بک رہی ہیں۔ دکاندار دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں عام آدمی ابھی تک مہنگائی کم ہونے کے انتظار میں ہے مگر دکاندار کہتے ہیں سیلاب کی وجہ سے مال کم آرہا ہے۔ اس لئے سبزیاں مہنگی ہیں۔ورنہ جا کر وہاں سے لیں جو دے رہا ہو۔۔ 
مراد سعید کے خیبر پی کے حکومت سے رابطے اور مخالف رہنماﺅں کو نکالنے میں اہم کردار۔ 
یہ اچانک بلبل خیبر پی کے نے ایک بار پھر چہچہانا شروع کردیا ہے۔ حقیقت میں گلوکارہ مہ جبیں قزلباش کے بعد اگر کسی کی آواز کا زیروبم فوراً اپنی طرف متوجہ کرتا ہے تو وہ پی ٹی آئی کے مراد سعید ہی ہیں۔ بے ساختہ ادا ہونے والے تذکیر و تانیث کی حدودو قیود سے آزاد انکے جملے علیحدہ اثر رکھتے ہیں۔ اور چہرے کے تاثرات میں صرف اداکار فردوس جمال ہی انکے مقابلے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ یہ پی ٹی آئی کے ان رہنما?ں میں شامل ہیں جو دعوے کرتے تھے کہ جہاں انکے بانی کا پسینہ گرے گا‘ وہاں وہ اپنا خون بہائیں گے۔ یعنی خون کی ندیاں بہا دینگے۔ مگر لگتا ہے یہ ساری بہادری انکے حکومت میں رہنے تک ہی تھی۔ جو ں ہی ابتلا کا دور آیا تو
کیا کرتے تھے باتیں زندگی بھر ساتھ دینے کی
مگر یہ حوصلہ ہم میں جدا ہونے سے پہلے تھا
کی حالت سب کے سامنے ہے۔9 مئی کے بعد اب تک موصوف ان دوستوں میں شامل ہیں جن کا دور دور تک اتاپتا نہیں۔ یا شاید انہیں اسٹیبلشمنٹ والوں نے خود روپوش ہونے کا مشورہ دیا ہے کہ اگر مستقبل میں کبھی انہیں کوئی بڑی ذمہ داری دیں تو وہ خوش اسلوبی سے پی ٹی آئی میں موجود اپنے ہم خیال دھڑے کے ساتھ مل کر انجام دیں۔ یہ بات اس لئے بھی یاد آئی کہ گزشتہ دنوں انکی ایک ٹیلی فونک گفتگو سامنے آئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی میں اپنے مخالف دھڑے کے رہنماﺅں کو کھڈے لائن لگانے میں سرگرم کردار ادا کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے جن رہنماﺅں کو فارغ کیا‘ مراد سعید بھی اس پر خوش ہیں۔ وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ عاطف خان‘ شکیل خان‘ اور مشعال یوسفزئی کو ہٹایا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روپوشی کے باوجود انکے وزیراعلیٰ اور دیگر پی ٹی آئی رہنماﺅں سے مکمل رابطے ہیں اور پارٹی میں پیدا ہونیوالے اختلافات میں ان کا کردار بھی اہم ہے۔

ای پیپر دی نیشن