مہنگائی کی کم ترین سطح اور زمینی حقائق

وزیرِاعظم شہباز شریف نے مہنگائی سنگل ڈیجٹ پر آنے کے اعلان پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے حکومتی معاشی ٹیم کی محنت رنگ لارہی ہے۔اگست میں مہنگائی کا 9.6 فیصد پر آنا معیشت میں بہتری کے حکومتی اقدامات کا عکاس ہے۔ 3 برس میں مہنگائی کی کم ترین شرح کا سہرا حکومتی معاشی ٹیم کی محنت کو جاتا ہے۔ 3 سال میں پہلی بار مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ پر ا?گئی۔ افراط زر میں کمی وزارت خزانہ کی معاشی آو¿ٹ لک رپورٹ کی پیشگوئی کے عین مطابق ہے۔ معاشی آو¿ٹ لک رپورٹ تھی کہ اگست میں مہنگائی 9.5 سے 10.5 فیصد رہے گی۔ معاشی ماہرین کی ستمبر میں افراط زر میں مزید کمی کی پیشگوئی قوم کےلیے خوشخبری سے کم نہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے پاکستان کی معیشت کا خوش کن نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ آج سے تین سال پہلے کی بات کریں تو سامنے ستمبر 2021ءآجاتاہے۔یکم ستمبر کو پٹرول کی قیمت 118 روپے لیٹر تھی۔پٹرول اور بجلی کی قیمتیں مہنگائی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ان دنوں بجلی کی بھی فی یونٹ قیمت آج کے مقابلے میں بہت کم تھی۔اپریل 2022ءمیں اقتدار میں آنے سے قبل پی ڈی ایم کے لیڈروں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ بجلی کا یونٹ 16 روپے سے کم کر کے 12 روپے کریں گے۔ آج بجلی کے بلوں نے عام آدمی کے گھر کا بجٹ بری طرح سے متاثر کیا ہے۔عالمی رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں گھروں کے کرایوں سے زیادہ بجلی کے بل آتے ہیں۔کچھ لوگ تو اپنی اور بچوں کی جان بھی بجلی کے بل جمع نہ کرانے کے باعث لے چکے ہیں اور یہ خبریں بھی آتی رہتی ہیں کہ کسی نے موٹرسائیکل بیچ کر، کسی نے زیورات بیچ کر بل جمع کرائے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاءاللہ تارڑ نے کہا ہے کہ تین سال میں پہلی بار مہنگائی سنگل ڈیجٹ پر آئی ہے، وفاق نے 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے بجلی صارفین کو 50 ارب روپے کی سبسڈی دی جبکہ پنجاب نے 201 یونٹ سے 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے اپنے صوبے اور وفاق کے بجلی صارفین کو 45 ارب روپے کی سبسڈی دی، کیا ہی اچھا ہوتا کہ ٹمبر مافیا اور تمباکو مافیا سے پیسے لینے والے بھی اپنے صوبے کے بجلی صارفین کو اس طرح کی سہولت دیتے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران ایک ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ محمد نواز شریف 2018ءمیں 4 فیصد پر مہنگائی چھوڑ کر گئے تھے، جہاں پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی گئی، وہاں مہنگائی کا سنگل ڈیجٹ پر آنا وزیراعظم شہباز شریف کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
2022ءمیں آنے والی پی ڈی ایم کی حکومت اس کے بعد نگران اور اب اتحادی جماعتوں کی حکومت کے دوران بجلی کے نرخوں میں جس طرح اضافہ کیا گیا ہے اس کی مثال ماضی میں کسی بھی دور حکومت میں نہیں ملتی۔عطا اللہ تارڑ جس بھی صوبے کو ٹمبر اور تمباکو مافیا کی "گرہ " لگا کر بات کر رہے ہیں ان کا اپنے صوبے میں پنجاب کی طرح ریلیف نہ دینے کا اپنا موقف ہے۔وزیر اطلاعات و نشریات 2018ءکی بات کرتے ہیں۔ان کی طرف سے اور وزیراعظم کی طرف سے بھی یہ کہا گیا ہے کہ میاں نواز شریف مہنگائی چار فیصد پر چھوڑ کر گئے تھے۔اس کے بعد اب مہنگائی میں کمی آئی ہے۔ ستمبر 2017ءکی بات کریں تو اس روز مسلم لیگ نون کی حکومت کے دوران پٹرول کی قیمت 71 روپے فی لیٹر تھی۔بجلی کا یونٹ بھی نو 10 روپے سے زیادہ کا نہیں ہوگا۔ آج مہنگائی نو فیصد ہے۔ چار سے تقریبا دو گنا، عوام اگر اس حساب سے پٹرول اور بجلی کی قیمت کے تعین کا مطالبہ کریں تو بے جا نہیں ہوگا۔
عام آدمی کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کی سمجھ نہیں آتی۔اسے نہیں معلوم کہ موڈیز نے کیا کہا ہے اور فیچ کی کیا رپورٹس ہیں۔دو جمع دو چار روٹیاں کہنے والاتو اپنی آمدن اور اخراجات کا حساب لگاتا ہے۔2017ء اور 2021ءکی نسبت اس کی زندگی اجیرن ہو کے رہ گئی ہے۔
ایک تو لوگ مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ ہیں دوسرے بے روزگاری میں مزید بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ چند روز قبل یوٹیلٹی سٹورز بند کرنے کا اعلان کیا گیا جس کے 11 ہزار ملازمین ہیں جن میں سے چھ ہزار مستقل ہیں باقی کنٹریکٹ پر ،ان لوگوں کو اپنی روٹی روزی کے لالے پڑ گئے۔وہ سڑکوں پر نکل آئے ،بھرپور احتجاج کیا گیا۔حکومت نے اب کہا ہے کہ یوٹیلٹی سٹور بند کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔اگر حکومت نے یوٹیلٹی سٹور بند کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے تو یہ خوش آئند ہے۔کہا جا رہا ہے کہ رائٹ سائزنگ کمیٹی کی سفارش پر چھ ہزار سرکاری ملازمین متاثر ہو سکتے ہیں۔ادھر ایک خبر یہ بھی ہے کہ 60 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کے لیے سول سرونٹ ایکٹ 1973ءمیں ترمیم کی جا رہی ہے۔خیبر پختونخوا حکومت نے اس ترمیم کو قبول کرنے سے معذرت کی ہے۔ادھر ریلوے میں 13 ہزار اسامیاں ختم کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ان ملازمین کا تعلق پشاور ریلوے ڈویژن سے ہے۔
جن ملازمین کو کسی بھی وجہ سے فارغ کیا جا رہا ہے۔ ان کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟ گو کہ حکومت کی طرف سے ان کو کچھ طفل تسلیاں ضرور دی جاتی ہیں مگر ایک بار سرکاری ملازم اپنی نوکری سے گیا تو اس کا اکاموڈیٹ ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔
معاشی ریٹنگ اور مہنگائی میں کمی کے اعدادو شمار بے شک درست ہو سکتے ہیں‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی اب بھی اپنے پورے عروج پر ہے‘ ہر شے عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے‘حکومت اداروں اور ایجنسیوں کی رپورٹوں کے بجائے‘ عام آدمی کی مشکلات سے مہنگائی کا اندازہ لگائے جو اس وقت عملاً خودکشی کرنے پر مجبور ہے۔ آسامیاں ختم کرنے اور ملازمین کو فارغ کرنے سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا‘ فارغ ہونے والے ملازمین سڑکوں پر نکل کر حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں‘ بہتر ہے عوام دوست پالیسیاں بنائی جائیں ‘ عوام کو مطمئن کرکے ہی حکومت کی گڈگورننس قائم ہو سکتی ہے۔حکومت اعداد و شمار کا پرچار ضرور کرے مگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر۔ عوام کے غیض و غضب سے بچنے کیلئے انہیں ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کرے۔

ای پیپر دی نیشن