مسئلہ چھ ججوں کا۔۔۔؟

اگر ہم تھوڑا سا بھی غوروفکر کر لیں تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ہر کام اپنی حدود وقیود میں ہی اچھا لگتا ہے۔ جب بھی آپ تجاوز کریں گے تو اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ آپ دور نہ جائیں آپ روزانہ تین وقت کا کھانا کھاتے ہیں اور اتنا ہی کھانا کھاتے ہیں جتنی آپ کو بھوک ہوتی ہے اور جب آپ کی بھوک ختم ہو جاتی ہے تو سونے کے نوالے بھی اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔ اور اگر آپ زیادتی کرکے زیادہ کھا لیں تو آپ کو بدہضمی ہو جائے گی، آپ کا نظام انہضام اس زیادتی کو قبول نہیں کرتا۔ اسی طرح اگر زمین سورج چاند ستارے اپنے مدار سے رتی برابر بھی ادھر ادھر ہوجائیں تو تباہی آجائے۔
 نظام فطرت ہمیں سکھاتا ہے کہ اپنی اوقات میں رہو لیکن انسان ہے کہ چھیڑ خانی سے باز ہی نہیں آتا۔ اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوق بنانے کے ساتھ ساتھ اسے عقل وشعور کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ اپنا نائب بنا کر اسے کچھ اختیارات بھی تفویض کر رکھے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے اچھائی برائی اور حقوق وفرائض کی حدود وقیود سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔ جب آپ اپنے طے شدہ معاملات سے روگردانی کرتے ہیں تو اس کے برے اثرات نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
 آپ غور کریں پاکستان کے معاملات کیوں خراب ہوئے اور کیوں نہیں سنبھل پا رہے تو ایک بات ہی سمجھ آتی ہے کہ ہم نے طے شدہ اصولوں کی پاسداری نہیں کی۔ ہم نے نظام میں چھیڑ چھاڑ کرکے اپنی من مرضی کے ساتھ کچھ تخلیق کرنے کی کوشش کی جس کے برے اثرات کو بھگت رہے ہیں۔ لیکن انسان چونکہ ضدی واقع ہوا ہے اور ساتھ اگر اختیارات بھی ہوں تو انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آخری حدوں سے بھی باہر نکل جاتا ہے۔ اگر طے شدہ اصولوں کے مطابق منتخب جمہوری حکومتوں کو وقت پورا کرنے دیا جاتا تو شاید آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اس کے بعد اگر طے شدہ اصولوں کے مطابق انتخابات کروائے جاتے اور عوامی فیصلوں کا احترام کیا جاتا، پری الیکشن اور پوسٹ الیکشن دھاندلیوں کے لیے پیچ نہ لگائے جاتے تو بھی معاملات چلتے رہتے اور اتنے برے سائیڈ افیکٹس نہ آتے۔ لیکن شاید ہم انتہاو¿ں سے بھی آگے جانے کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں اور ہر چیز کو نیست ونابود کرکے اپنی من مرضی کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ لوگ تاحال الیکشن کے نتائج کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر پا رہے اور الیکشن کی گرد ابھی بیٹھ نہیں پا رہی کہ ہم نے مزید چھیڑ خانی شروع کر دی ہے۔ الیکشن کے انعقاد کو 7ماہ گزر چکے ہیں لیکن معاملات سیٹل نہیں ہو پا رہے۔ نہ ایک سیاسی حقیقت قابو آ رہی ہے نہ اسے مینج کر پا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک سیاسی سماجی اور معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار چلا آرہا ہے۔ 
سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر تاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا اور اس فیصلے پر عملدرآمد کو روکنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اب پارلیمنٹ کے ذریعے سے عدالتی احکامات کے راستے میں دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس میں کون کس حد تک کامیاب ہوتا ہے، کیا اداروں میں کسی نئی لڑائی کی بنیاد رکھی جا رہی ہے؟۔ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ماضی کا تجربہ بتا رہا ہے کہ جب بھی حقیقتوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، اس کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ اس کے اثرات قوم کو بھگتنا پڑے ہیں۔
 پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے لیے ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 23 کرنے کے لیے بل سینٹ میں پیش کر دیا گیا ہے۔ اس پر باقاعدہ کارروائی کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود عین ممکن ہے کہ یہ بل پاس بھی ہو جائے اور صدر مملکت بھی راضی خوشی اس پر دستخط کر دیں لیکن ذرا تصور کریں۔ اگر مخصوص نشستوں کا سپریم کورٹ سے فیصلہ نہ آیا ہوتا تو کیا پھر بھی ججز کے اضافہ پر قانون سازی ہونا تھی۔ اس فیصلہ نے حکومت کی دوتہائی اکثریت ختم کر دی ہے جس سے حکومت کی آئین میں ترامیم کی خواہشات کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔ اس فیصلہ سے قبل تو کبھی بھی حکومت کو زیر التوا کیسوں کا خیال نہیں آیا۔ ججز پر مقدمات کا بوجھ پہلے کبھی محسوس نہیں کیا گیا۔
 سپریم کورٹ میں تو پھر بھی زیر التوا کیسز کی تعداد کم ہے ذرا ماتحت عدلیہ کے اعدادوشمار بھی چیک کر لیے جائیں جہاں زیر التوا کیسز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اگر جلدی انصاف فراہم کرنے کی خواہش ہے تو پھر ماتحت عدلیہ میں فوری طور پر ہزاروں نئے ججز بھرتی کرنے کی ضرورت ہے۔ شاید چھ ججز کے اضافہ سے پاکستان کے نظام انصاف پر تو اتنا اثر نہ پڑے لیکن حکومتی معاملات پر بہت گہرا اثر پڑے گا۔ دراصل ابھی پچھلا فیصلہ ہضم نہیں ہو پا رہا تھا کہ چھٹیوں کے بعد عدالتوں میں زیر سماعت الیکشن پٹیشنوں سمیت اہم مقدمات کی سماعت شروع ہونے والی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ شاید عدالتی بیلنس برقرار نہیں رہا اور یہ بیلنس برقرار رکھنے کے لیے 6 ججز کا اضافہ از حد ضروری ہو چکا ہے۔ بہرحال اسے جو بھی کہیں لیکن اداروں کے درمیان ایک نئی لڑائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ انجام خدا جانے۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...