مرد ِ مجاہد

پچھلے کالم کی اختتامی سطر “میرا نام مصطفی جمال قاضی ہے اور میں ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کے فرائض انجام دے رہا ہوں" سے ہی اس کالم کا آغاز کرتے ہیں۔ ان الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ہی یہ صاحب کہنے لگے کہ شائد آپکو علم نہیں ہم نے ملک کے سینئر سٹیزن کیلئے مکمل ایک علیحدہ سیکشن بنایا ہے۔ آپ نیچے بیسمنٹ میں تشریف لے چلیں اور اسکے ساتھ ہی انھوں نے اپنے ایک اہلکار کو ہماری راہنمائی کیلئے کہا۔ جب سے ہمارے ایک صوبے کے آئی جی اور وزیراعلی نے بیشمار ٹک ٹاکرز اور دوسرے سوشل میڈیا ایکوپمنٹ کا استعمال شروع کیا ہوا ہے، انسانی فطرت سے مجبور ذہن میں ایک مبہم سے سوال نے جنم لیا کہ کہیں یہ بھی اسطرح کا ری پلے تو نہیں کہ صاحب خود کو درشنی پہلوان ثابت کرنے اور سستی عوامی شہرت کیلئے بیچ ہال میں کھڑے راہنمائی کے روپ میں یہ سارا ڈرامہ کر رہے ہوں۔ خیر جب ہم نیچے بیسمنٹ میں پہنچے تو وہاں کے خوشگوار ماحول اور عملہ کے برتاو نے ایک دفعہ پھر نادرا والے دفتر کی یاد تازہ کر دی جہاں کچھ دن پہلے ہمارا وزٹ ہوا تھا۔ نادرا کے ماحول اور سہولیات کے بعد اس دفتر کی کارکردگی دیکھ کر دل کو یقین ہو چلا کہ جب تک علی ارشد حکیم اور مصطفی جمال قاضی جیسے دیپ ہمارے نظام میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں، انشاءاللہ ایسے لوگوں کی موجودگی اور کارکردگی کی وجہ سے اس ملک میں ایک نہ ایک دن اندھیروں کا سفر ختم ہو کر رہے گا۔
بڑے بوڑھوں کا قول ہے کہ قدرت کی طرف سے رزق کے دانے دانے پر کھانے والے کا نام اور کس جگہ میسر ہونا ہے، یہ بھی لکھا ہوتا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ خون کے ایک ایک قطرے اور جسم کے انگ انگ میں پاکستانیت رچی بسی ہے لیکن حالات کے جبر نے برطانیہ اور پاکستان دو ملکوں میں رہنے پر مجبور کر چھوڑا ہے۔ اور ان دنوں زندگی کا زیادہ حصہ برطانیہ میں گزر رہا ہے۔ جگری یار میاں اسلم بشیر جب تک زندہ تھا ہر دوسرے تیسرے مہینے پاکستان کا چکر ضرور رہتا تھا۔ اگر دیر ہو جاتی تو وہ اپنا بیگ اٹھائے لندن پہنچ جاتا، اسی طرح برطانیہ میں اپنا ایک برخوردار ہے نعیم نقشبندی، جب تک دن میں دو تین فون کر کے بات نہ کر لے اسے چین نہیں آتا۔ آج بھی جب گھر پہنچا تو اسکا فون آیا کہ کدھر تھے آپ! بار بار فون کر رہا تھا لیکن آپ سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔ بتایا پاسپورٹ کی تجدید کے سلسلے میں پاسپورٹ آفس گیا ہوا تھا۔ نعیم کہنے لگا چند دن بعد آپ لندن آ ہی رہے تھے یہاں ایمبیسی چلتے۔ بغیر کسی تردد کے پانچ منٹ میں کام ہو جاتا۔ عرض کی، جن پانچ منٹ کی آپ بات کر رہے ہو انھی پانچ منٹ میں یہاں بھی کام ہو گیا اور نعیم کو پورا واقعہ سنایا کس طرح ڈی جی پاسپورٹ بذات خود لوگوں کی راہنمائی کیلیئے دفتر کے مین ہال میں کھڑا تھا۔اس پر نعیم نے بتایا کہ یہ شخص مصطفی جمال قاضی پورے پاکستان میں ہی اسطرح ایکٹیو نہیں اور جدید اصلاحات نہیں کر رہا۔ اس شخص نے وزیر داخلہ محسن نقوی اور سفیر پاکستان ڈاکٹر فیصل کے ساتھ ملکر برطانیہ میں جو اصلاحات کی ہیں انکی تفصیل آپکو حیران کر دیں گی۔ نعیم بتانے لگا کہ کہ یہ 2023ءکی بات ہے کہ حکومت پاکستان نے اوورسیز پاکستانیوں کی سہولت کیلئے ایک ایسی حج سپانسرشپ سکیم متعارف کروائی جسکے تحت اوورسیز پاکستانی حج کے اخراجات فارن ایکسچینج میں ادا کرنے کے ساتھ پاکستان کا حج کوٹہ استعمال کرکے پاکستانی پاسپورٹ پر سفر کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اس سکیم کے تحت حج کرنے اور ڈائریکٹ برطانیہ سے برطانوی کوٹہ کے تحت برطانوی پاسپورٹ پر حج کے اخراجات میں زمین و آسمان کا فرق تھا لہٰذا ہر پاکستانی کی خواہش تھی کہ وہ اس سکیم سے فائدہ اٹھائے لیکن یہاں ایک قباحت نے سر اٹھایا۔ جب سے یہ NICOP کا سلسلہ شروع ہوا ہے زیادہ تر اوورسیز پاکستانیوں نے اب پاکستانی پاسپورٹ رکھنے چھوڑ دیے ہوئے ہیں۔ اس سکیم کے تحت یہاں بھی یہ مشکل پیش آئی اور پھر جب لوگوں نے اس سکیم کا فائدہ اٹھانے کیلیئے پاسپورٹ کے حصول کیلیئے سفارتخانہ کا رخ کیا تو پھر جو طوفان بدتمیزی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا اسکی وجہ سے 2023ءمیں اس سکیم کا لوگ کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکے۔ نعیم نقشبندی برطانیہ میں سول سوسائٹی کا بڑا ایکٹیو ممبر ہے اور اس سباق اسکی بنائی تنظیم OPWC برطانیہ میں اپنی سوشل سرگرمیوں کی وجہ سے خاصی مقبول بھی ہے۔ بقول نعیم نقشبندی 2023ء میں پاسپورٹ کے حصول کے سلسلے میں جو غدر مچا تھا اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے اس نے اپنی تنظیم کے پلیٹ فارم سے 2024ءکے ابتدائی مہینوں میں ہی موجودہ وزیر داخلہ محسن نقوی، سفیر پاکستان ڈاکٹر فیصل اور ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن مصطفی جمال قاضی کو بذریعہ خطوط ان تمام حقائق سے آگاہ کیا جنکی وجہ سے پوری کی پوری کیمونٹی میں حکومت پاکستان سے بدگمانیاں اپنے عروج پر پہنچ چکی تھیں۔ صحافت کا اصول ہے جو لکھو، لکھنے سے پہلے اسکی تصدیق ایک سے زیادہ ذرائع سے کرو چونکہ راقم بذات خود برطانیہ کی سول سوسائٹی میں خاصا میل جول رکھتا ہے اس لئے اس سلسلے میں حقائق جاننے کیلیئے اس نے اور بھی لوگوں سے رابطے کیے۔ جہاں زمینی حقائق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اوپر بیان کردہ الزامات میں واقعتاً حقیقت کا رنگ موجود تھا اور جیسے ہی ان تین شخصیات کے علم میں پاکستانی ایمبیسی کے پاسپورٹ سیکشن میں بیٹھی کالی بھیڑوں کے کارنامے آئے انہوں نے لمحوں کی تاخیر کے بغیر ان گماشتوں کی سرکوبی کرکے نیا عملہ پوسٹ کیا اور بتانے والے بتاتے ہیں کہ پاسپورٹ سیکشن میں متعین ہونے والے نئے عملہ نے جس خوش اسلوبی سے فرائض انجام دیئے انھوں نے 2024ءمیں اوورسیز پاکستانیوں کے حج میں بڑی آسانیاں پیدا کیں۔ آخر میں بس یہی دعا ہے کہ بھلائیوں کا سفر صرف اس مرد مجاہد تک محدود نہ رہے بلکہ یہ قافلے کی صورت اختیار کر جائے۔ آمین۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن