ایسا کیا ہوا کہ بدنام زمانہ گوگی بٹ اور طیفی بٹ کو ٹیپو ٹرکاں والے کے فرزند امیر بالاج کے قتل کا فیصلہ کرنا پڑا۔ قتل کی اس گھناﺅنی منصوبہ بندی میں بالاج کے قریبی دوست احسن شاہ نے گھناﺅنا کردار ادا کیا۔ اگرچہ احسن شاہ اپنے انجام کو پہنچ چکاہے لیکن دونوں خاندانوں کے بیچ دشمنی کی یہ کہانی دہرائی جاتی رہے گی۔
لاہور کے سرکلر روڈ پر شاہ عالم چوک کے نزدیک بلا ٹرکاں والا کا ڈیرہ اور قدیم اقامت گاہ اس وقت پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔نجی ٹی وی چینل کے ایک سینئر کرائم رپورٹر کے مطابق بلا ٹرکاں والا اور گوگی بٹ کے مابین دشمنی کی شروعات بھاٹی کے ایک سینما تھیڑ سے ہوئی جہاں ان کے مابین معمولی تکرار کے بعد علاقے کی چودھراہٹ پر تنازعہ شروع ہو گیا۔
بلا ٹرکاں والا اور گوگی بٹ کا تعلق کشمیری گھرانوں سے ہے۔ برسوں پہلے چودھراہٹ کے تنازعے نے دونوں خاندانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا۔ بے بہا پیسے اور طاقت کے زعم میں دونوں خاندان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے۔ بلا ٹرکاں والا قتل ہو گیا۔ جسے اس کے اپنے گن میں بابا حنیفا نے قتل کیا۔ بابا حنیفا کو اس قتل کی سپاری گوگی اور طیفی بٹ نے دی تھی۔ اس کے عوض بابا حنیفا نے گوگی اور طیفی سے لاکھوں روپے وصول کئے۔ قتل کا مقدمہ درج ہوا جو بلا ٹرکاں والا کے بیٹے امیر ٹیپو نے بابا حنیفا، گوگی بٹ اور طیفی بٹ کے خلاف درج کرایا۔ بعازاں گوگی اور طیفی کی ضمانت ہو گئی۔ جیل سے باہر آئے تو امیر ٹیپو کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھنے لگے۔ گوگی امیر ٹیپو کی ”ریکی“ کرنے لگا۔ اس کی آمد و رفت اور روزہ مرہ کی مصروفیات اور سرگرمیوں پر نظر رکھنے لگا۔ اسی دوران گوگی اور طیفی کو پتہ چلا کہ امیر ٹیپو کچھ ایام کے لیے دبئی چلا گیا ہے۔ انہوں نے پوری نظر رکھی کہ ٹیپو کی کب اور کس فلائٹ سے واپسی ہو گی۔ جس دن امیر ٹیپو دبئی سے لاہورپہنچا۔ گوگی کا بھیجا ہوا شوٹر پہلے ہی سے ایئر پورٹ کی پارکنگ میں موجود تھا۔ ٹیپو جیسے ہی ایئرپورٹ کی عمارت سے پارکنگ کی طرف آیا۔ شوٹر نے پستول کا پورا چیمبر ٹیپو پر خالی کر دیا۔ جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہو گئی۔
دشمنی کی کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اب ٹیپو کا بیٹا امیر بالاج، گوگی اور طیفی کا ٹارگٹ تھا۔ جسے انہوں نے بالاج ہی کے ایک دوست احسن شاہ کی مدد سے شادی کی ایک تقریب میں قتل کرا دیا۔ جس کے لیے ایک اجرتی قاتل کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس واقعہ کو ملکی ہی نہیں غیر ملکی میڈیا نے بھی ہائی لائٹ کیا۔ بی بی سی اردو سروس نے اس دشمنی کے تناظر میں ایک ڈاکومنٹری بھی بنائی۔
امیر بالاج کے وقوعہ میں مقامی پولیس، پولیس کے افسران، فرانزک اور جیو فینسنگ کے ماہرین کی ٹیمیں جب جائے وقوعہ پر پہنچیں تو بہت سے حقائق اور شواہد سامنے آئے۔ موقع پر موجود احسن شاہ کی حرکات و سکنات چونکہ مشکوک اور معنی خیز تھیں اس لیے انویسٹی گیشن پر مامور افسران کو یہ فیصلہ کرنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ احسن شاہ بھی اس ”واردات“ میں ملوث ہو سکتا ہے۔ تانے بانے ملائے گئے اور تفتیش آگے بڑھی۔
جیو فینسنگ ٹیم نے بھی موقع پر جب کچھ مخصوص نمبرز پر احسن کی کالز کی نشاندہی کی تو یہ بات پوری طرح آشکارا ہو گئی کہ احسن شاہ وقوعہ سے پہلے اور وقوعہ کے بعد بھی طیفی بٹ کے ساتھ رابطے میں تھا۔ احسن سے مزید پوچھ گچھ کی گئی تو باتیں کھل کر سامنے آنے لگیں۔ ابہام دور ہو گئے کہ بالاج کے وقوعہ میں گوگی، طیفی اور احسن شاہ کا مکمل ہاتھ ہے۔شوٹر کے نام کی بھی بعد میں تصدیق ہو گئی کہ کون ہے؟ بالاج کے قتل کے بعد اس کے گن مینوں نے شوٹر کو بھی موقع پر ہلاک کر دیا۔ اس طرح دشمنی کی اس کہانی کا ایک اہم کردار اپنے انجام کو پہنچا۔ اس کہانی کا ایک اور اہم کردار احسن شاہ بھی تھا۔ جسے اب اپنے منطقی انجام تک پہنچنا تھا۔ اب تک کی تحقیق اور معلومات کے مطابق دشمنی کی اس داستان میں سب سے گھناﺅنا کردار احسن شاہ کا رہا۔ جس نے بالاج کے قتل میں گوگی اور طیفی کو مدد فراہم کی۔ بالاج کی آمدورفت اور موجودگی کے متعلق گوگی اور طیفی کو آگاہ رکھا۔ احسن کا کردار ایک گھٹیا مخبر کا کردار تھا۔ جس نے اپنے ہاتھوں اپنے دوست کو مروا دیا۔ جبکہ بالاج نے ہمیشہ احسن پر نوازشوں کی بارش کی۔ پیسے کی جہاں ضرورت پڑی، احسن کو دئیے۔
احسن شاہ کو بالاج کے مقدمہ قتل میں بعض ٹھوس شواہد کی بنیا د پر نامزد ملزم ٹھہرایا گیا۔ بعد ازاں تھانے سے جسمانی ریمانڈ اور تفتیش کے بعد اسے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ جہاں مبینہ پولیس مقابلے سے پہلے جیل میں والدہ اور اہلیہ کے ساتھ اس کی ملاقات ہوئی۔ جس میں احسن نے بتایا کہ آرگنائزڈ کرائم یونٹ (سی آئی اے) کے لوگ اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ آج بھی سب انسپکٹر شکیل بٹ اسے مل کر گیا ہے۔ اس کے تیور اچھے نہیں لگتے۔ طرزِ عمل اور گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ شکیل بٹ اسے جعلی پولیس مقابلے میں مارنا چاہتا ہے۔ احسن گڑگڑایا، والدہ اور اہلیہ سے درخواست کی کہ اس کی جان بچانے کے لیے فوری عدالت سے رجوع کریں۔ لیکن برے وقت نے اگلی صبح طلوع نہیں ہونے دی۔ اسی شام شکیل بٹ، احسن شاہ کو اپنے ساتھ کوٹ لکھپت جیل سے آرگنائزڈ کرائم یونٹ اقبال ٹاﺅن لے آیا جہاں ڈی ایس پی جہانگیر بٹ پہلے سے احسن کے منتظر تھے۔ جہانگیر بٹ ان پولیس افسران میں شامل ہے جو جعلی پولیس مقابلوں کے لیے مشہور ہیں۔ انسپکٹر عابد باکسر کے بعد جہانگیر بٹ دوسرے ایسے پولیس افسر ہیں جنہوں نے بے شمار پولیس مقابلے کئے ہیں انہیں جعلی پولیس مقابلوں کا سپیشلسٹ مانا جاتا ہے۔
احسن نے والدہ اور اہلیہ کے سامنے جس جعلی پولیس مقابلے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ وہ ہو کر رہا۔ پولیس کے مطابق وہ ”شادباغ“ میں درج ایک پرانے مقدمہ میں احسن کو مالِ مقدمہ کی ریکوری کے لیے لے کر جا رہے تھے کہ راستے میں احسن کے بھائی علی رضا نے پولیس کی حراست سے احسن کو چھڑانے کے لیے پولیس پارٹی پر فائرنگ کر دی۔ خوش قسمتی سے پولیس والے بچ گئے۔ لیکن علی رضا کا فائر لگنے سے احسن شاہ شدید مضروب ہو گیا۔ جسے مضروب حالت میں ہسپتال پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم وہ راستے ہی میں دم توڑ گیا۔ اس طرح اس المناک کہانی کا ایک اور کردار اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔
یہ بات یہاں بہت توجہ طلب ہے کہ احسن شاہ کیا اپنے ہی بھائی کی گولی کا شکار ہوا یا پولیس نے اسے ہلاک کیا۔ احسن کی ہلاکت سے بالاج قتل کیس کی ایک اہم اور ٹھوش شہادت ختم کر دی گئی ہے۔ کیا یہ ثبوت مٹانے کے لیے گوگی اور طیفی بٹ کی کارروائی تھی؟ دشمنی کی اس المناک داستان میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پولیس یا ہمارا نظام عدل بظاہر گناہ گار پائے جانے والے گوگی اور طیفی بٹ کا آج تک کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ یہ اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچے تو پتہ نہیں ایسے کتنے ہی المناک واقعات آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔