عورت اور نسل

Sep 04, 2024

بلقیس ریاض

کچھ روز پہلے بذریعہ پارسل ایک کتاب موصول ہوئی بھیجنے والے عبدالستار عاصم تھے۔ یہ کتاب زہراہ خان رانجھا کی تھی۔ پڑھ کر حیرت ہوئی کی کہ زہراہ نے عورت اور نسل کی زندگی کی ایسی اہمیت کو اجاگر کیا ہے جو ہمارے تہذیبی ورثے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی روایت سے ہٹ کر ہے۔ عورت اور نسل کے موضوع پر بیشمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ والدین شادی سے پہلے وہ کتابیں لڑکیوں کو پڑھنے کی ہدایت کرتے تھے۔ اس میں بہشتی زیور وغیرہ مشہور ہے۔
ڈاکٹر سائرہ بتول نے اس کتاب میں خوبصورت پیش لفظ لکھا ہے۔
کہتی ہیں۔ عورت اور نسل بنیادی طور پر کوئی طبع زاد فلسفیانہ مباحث نہیں ہیں۔ یہ سادہ زبان میں بیان کی گئی چھوٹی چھوٹی سادہ سی باتیں ہیں۔ یہ کسی خاص قوم،نسل یا نظریے کی ترجمان تصنیف نہیں ہیں،بلکہ عمومی انسانی نفسیات کے حوالے سے بغور جائزہ لئے گئے ان مسائل کی نشاندہی ہے۔ جن کی طرف افراد، معاشرہ کامتوجہ ہونا ہر حال میں ضروری تھا۔
 زاہرہ خان نے اپنی کتاب میں نصیحت آموز باتیں لکھی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ کہانیاں اور کالم بھی لکھے ہیں....اس کتاب میں دلچسپی برقرار رکھی ہے اور خاص کر ازدواجی زندگی کو مضبوط کرنے کے طریقے بتائے ہیں۔ 
میاں بیوی کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لئے....جو باتیں نصیحت کے طور پرلکھتی ہیں کہ آپ ایک دوسرے کی سالگرہ پر آپس میں تحفے تحائف دیں جن میں گلدستہ،کارڈ یا کھانے پینے کی چیز.... یہ احساس دوسرا بھی کرے گا اور محبت کے اظہار کے کئی طریقے ہیں۔ آپ کا یہ احساس اچھی بات ہے۔ دوسرا بھی آپ کا خیال رکھتا ہے۔ آپ اپنے خاوند کو خصوصی ڈش بنا کر کھلا سکتی ہیں یا کیک سجا کر اس کو سرپرائز دے سکتی ہیں....اور اسی طرح محبت کے اظہار کے کئی طریقے ہیں.
ہر رشتے کے بارے میں بڑی خوبصورت باتیں کی ہیں کہ جو عقلمند عورت ہے وہ اپنے گھر میں سکون پیدا کرتی ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتی ہے۔ ہر معاملے میں عقل سے کام لیتے ہوئے کوئی ناگوار بات نہیں کرتی تا کہ خاوند کے ذہن پر کھچاو¿ نہ پڑے۔وہ اللہ کی شکر گزاری کرتی ہے اور کہتی ہے اللہ نے اتنا کچھ نوازا ہوتا ہے انسان کو۔ جو کچھ نہیں دیا ہوتا تو اس کا رونا روتا ہے، یہ نہیں سوچتا جو کچھ دیا ہے اس کا شکر ادا کریں۔ زاہرہ کی کتاب بہت منفرد ہے اس دور میں لوگ کم ہی لکھتے ہیں۔ زیادہ تر ناول، افسانے اور شاعری لکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے حالات حاضرہ کے جو مسائل ہیں اس پر جو لکھا ہے وہ ہی کافی ہے۔
اپنی اس کتاب میں میاں بیوی کے رشتے کے بارے میں جو نصیحت کی باتیں لکھیں وہ لاجواب ہیں۔ لکھتی ہیں میاں بیوی میں جھگڑا عارضی ہونا چاہیے اور یہ کنٹرول سے باہر بھی نا ہوں۔ یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ آپ جھگڑے کے درمیان گندی زبان اور بے جا الزام تراشی اور ماضی کے قصے کھول کر نا بیٹھ جائیں۔
بچوں کے سامنے لڑنا گویا بچوں کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے اس سے بچے جذبا تی طور پر مجروح ہو جاتے ہیں۔ اگر اپ کو کسی ایشو پر تیز تیز باتیں کرنی ہیں تو براہ مہربانی بچوں کی غیر حاضری میں کریں یا ایسی جگہ کا انتخاب کریں کہ بچے سن نا سکیں۔ 
طلاق کے بارے میں کہتی ہے کہ ٹھنڈے طریقے سے اپنی غلطیوں کا جائزہ لینا چائیے۔ طلاق جوڑوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ طلاق کے فیصلے پر سوچ سمجھ سے کام لینا چائیے۔اس کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔ 
بچوں کی تخلیقی صلاحیت پر خوبصورت باتیں بھی کی ہیں۔ والدین کو ہدایت دی ہے کہ بچے کو تخلیقی کیسے بنایا جائے کیونکہ بچے کو انفرادیت کاحق حاصل ہے۔ اس سے بچے میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ قدم قدم پر اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
 عورت کے دل کے بارے میں لکھتی ہے، وہ مسکراتی ہیں جب ان کا دل چیخنے کو چاہ رہا ہو۔
 وہ گیت گاتی ہیں جب وہ رونا چاہ رہی ہوں۔ 
 وہ روتی ہیں جب وہ خوش ہوں۔ 
 وہ لڑتی ہیں اس کیلئے جس میں انکا یقین ہو۔
 وہ نا انصافی کے خلاف ا ٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔
 زاہرہ کی بڑی مفید کتاب ہے پھر لکھنا پڑتا ہے کہ اس کتاب میں بہت سی باتیں اچھی ہیں۔ قاری کو بوریت نہیں ہوتی۔ میرے خیال سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے بہت ہی سبق آموز کتاب ہے تاکہ ان کی ازدواجی زندگی خوش گوار گزرے۔
پہلے زمانے میں بیٹی کی شادی جب ہوتی تھی تو اس کے والدین بہت سی ہدایات دے کر اس کو رخصت کرتے تھے۔ اسی قسم کی باتیں اس کی کتاب ”عورت اور نسل“ میں پڑھنے کو ملتی ہیں۔
 یہ کتاب عہد حاظر کی تمام مفید اخلاقیات کا نچوڑ بھی ہے۔ میرے خیال سے اس کتاب کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس میں زاہرہ کی انفرادیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ اپنا سٹائل الگ ہے۔ جو بھی پڑھے گا میرے خیال سے کچھ تو عمل کرے گا۔ اللہ کرے وہ ایسی مفید کتابیں لکھتی رہے اور ہمارے نوجوان بچے سیدھی راہ پر چلتے رہیں (آمین)۔

مزیدخبریں